کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 158
مترادف ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن کریم سبعہ احرف پر نازل کیاگیا، قرآن کریم کے متعلق جھگڑنا، اختلاف و جدال کا شکار ہوناکفر ہے۔ [مسند أحمد:۱/۳۰۰ ] حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قرآن کریم سات حروف پر نازل کیاگیا ہے، جس حرف کے مطابق قرآن کی تلاوت کرو گے درست قراءت کرو گے، اس کے متعلق جھگڑا نہ کیا کرو، کیونکہ قرآن کریم میں جھگڑنا، اختلاف کرنا کفر ہے۔‘‘ [مسند أحمد:۴/۲۰۴ ] سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایاکہ جس شخص نے قرآن کریم کے ایک حرف کا انکار کیا اس نے پورے قرآن کاانکار کردیا۔ [تفسیر الطبری:۱/۵۴ ] حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے کیسی عمدہ بات لکھی ہے، فرماتے ہیں : تمام اہل علم کااس امر پر اتفاق ہے کہ جو کچھ بھی قرآن مجیدمیں ہے وہ مبنی برحقیقت اور برحق ہے اور جو شخص دیدہ دانستہ منقول، محفوظ قراءت مرویہ کے علاوہ کوئی حرف زیادہ کرتا ہے یاکسی حرف کو کم کرتا ہے یاکسی متفق علیہ حرف کی جگہ کوئی دوسرا حرف لاتا ہے تو وہ کافر ہے۔‘‘[مراتب الاجماع:ص۱۷۴] جب قرآن کریم کے کسی حرف کے متعلق جھگڑا، اختلاف کرنا کفر ہے تو اس سے انکار کرنا تو بالاولی کفر ہوگا، لیکن ہم اسے ذرا تفصیل سے بیان کرتے ہیں : ہمارے رجحان کے مطابق اس انکار کی تین وجوہات ممکن ہیں : ۱۔ جہالت کی وجہ سے انکار کرنا ۲۔ کسی تاویل کی بنیاد پرانکار کرنا ۱۔ تکبر و عناد کی بناء پر انکار کرنا اگر کوئی شخص جہالت و لاعلمی کی وجہ سے قراءت متواترہ کاانکار کرتا ہے تو اسے کافر قرار دینے کے بجائے اس کی جہالت دور کی جائے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ دورانِ سفر اپنے باپ کی قسم اٹھائی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی لاعلمی اور جہالت کے پیش نظر انہیں کافر قرار نہیں دیا اور نہ ہی اسے تجدید ایمان کے لیے کہا بلکہ ان کی جہالت دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں باپ دادا کی قسم اٹھانے سے منع فرمایا ہے۔ [صحیح البخاري، الادب:۶۱۰۸] لیکن اس جہالت کی کچھ حدود و قیود ہیں مطلق جہل کو کفر سے مانع نہیں قرار دیا جاسکتا بلکہ اس سے مراد وہ جہالت ہے جسے کسی وجہ سے انسان دورنہ کرسکتا ہو خواہ وہ خود مجبور و لاچار ہو یا مصادر علم تک اس کی رسائی ناممکن ہو، لیکن اگر کسی انسان میں جہالت کو دور کرنے کی ہمت ہے اور اسے اس قدر ذرائع و وسائل میسر ہیں کہ وہ اپنی جہالت دور کرسکتا ہے، اس کے باوجود وہ کوتاہی کاارتکاب کرتاہے تو ایسے انسان کی جہالت کو کفر سے مانع قرار نہیں دیا جاسکے گا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اور ہم اس وقت تک عذاب نہیں دیا کرتے جب تک اپنا رسول نہ بھیج لیں ‘‘ [الاسراء :۱۵] اس آیت کے تحت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ بندوں پر اتمام حجت کے لیے دو چیزوں کو لانا ضروری ہے۔ ۱۔ اس کی طرف سے نازل شدہ تعلیمات کو حاصل کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ ۲۔ ان پرعمل کرنے کی قدرت رکھتا ہو۔ [مجموع فتاویٰ:۱۲/۴۷۸]