کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 157
راقم الحروف نے مدینہ طیبہ میں دورانِ تعلیم قراءت امام کسائی رحمہ اللہ پر مشتمل مصحف بھی دیکھا تھا، روایت قالون اور روایت ورش کے مطابق مصاحف توحرمین شریفین میں عام دستیاب ہیں ، بہرحال متواترہ قراء ا ت وحی کا حصہ ہیں ، ان میں سے کسی ایک کا انکار قرآن کاانکار کرنا ہے، چنانچہ امام سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’وہ سات قراء ات، جن پر امام شاطبی رحمہ اللہ نے اپنے قصیدہ میں انحصار کیا ہے اور وہ تین قراءات جو ابوجعفر، یعقوب اور امام خلف رحمہم اللہ کی طرف منسوب ہیں ، یہ سب کی سب متواترہ ہیں اور ضروری طور پر دین کاحصہ ہیں حتیٰ کہ ہروہ قراءت جو قراء عشرہ میں سے کسی ایک کے ساتھ خاص ہے، وہ بھی ضروری طور پر دین کا حصہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل شدہ ہیں ، اس نقطۂ نظر سے کوئی جاہل ہی انحراف کرسکتا ہے، ان قراءات و روایات کا تواتر صرف ماہرین علم قراءت کی حد تک ہی معلوم نہیں بلکہ ہراس مسلمان کے نزدیک قراءات عشرہ متواترہ ہیں جو أشھد أن لا الہ الا اللّٰہ وأن محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرتاہے، اگرچہ وہ ایک ایساعامی آدمی ہو جس نے قرآن کریم کاایک حرف بھی حفظ نہ کیا ہو، لہٰذا ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس کے متعلق اللہ کی اطاعت گزاری کرے اورجو کچھ ہم نے پہلے بیان کیا ہے اس کے متعلق یقین رکھے کہ وہ متواتر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ رکھے کہ ان میں کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوسکتے۔‘‘ [اتحاف فضلاء البشر]
امام زرکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’قراءاتِ عشرہ اور ان کی حجیت پراِجماع منعقد ہوچکا ہے نیز یہ قراءات سنت متبعہ ہیں اور ان میں رائے اوراجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘‘[البرھان فی علوم القرآن،:۱/۳۲۱ ]
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ قراءات عشرہ کے متعلق رقم طراز ہیں :
’’اہل علم میں سے کسی نے بھی قراءات عشرہ کاانکار نہیں کیا ہے۔‘‘[مجموع الفتاویٰ:۱۳/۳۹۳ ]
نیز فرماتے ہیں کہ: ’’ خط مصحف میں مختلف قراءات کا احتمال شارع کی طرف سے ہے کیونکہ ان کا مرجع سنت و اتباع ہے، اجتہاد و روائے نہیں ۔‘‘ [مجموع الفتاویٰ:۱۳/۴۰۲ ]
امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں :
’’اس دور میں مسلمانوں کااجماع ہے کہ اَئمہ قراءات سے جو قراءات منقول ہیں وہ قابل اعتماد ہیں ، کیونکہ ان ائمہ کرام نے علم قراءات کے متعلق متعدد کتب تالیف کی ہیں ، اس طرح اللہ کی طرف سے حفاظت قرآن کا وعدہ بھی پورا ہوگیا جیساکہ قاضی ابوبکر بن طیب اور امام طبری رحمہم اللہ جیسے محققین نے اس امر پر اتفاق کیاہے۔‘‘ [تفسیر قرطبی:۱/۴۶]
امام ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’قراءات سبعہ پر متعدد ادوار گزر چکے ہیں اور یہ نمازوں میں پڑھی جارہی ہیں کیونکہ یہ اجماع امت سے ثابت ہیں ۔‘‘ [المحرر الوجیز: ۱/۴۹]
مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوا کہ قراءات سبعہ اور عشرہ یا قرآن مجید کو پڑھنے کے مختلف لہجات متواتر احادیث سے ثابت ہیں اور ان پر امت کااجماع ہوچکا ہے، کسی شخص کے لیے ان کا انکار کرنا جائز نہیں ہے۔ وابعد المستعان
اب ہم سوال کے آخری حصہ کے متعلق اپنی گذارشات پیش کرتے ہیں کہ قراءات متواترہ کے انکار کرنے والے کے متعلق علمائے امت کی کیا رائے ہے۔ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیں کیا برتاؤ کرناچاہئے، اس سلسلہ میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ جانتے بوجھتے ہوئے قراءاتِ متواترہ کا انکار کفر ہے، کیونکہ قراءات متواترہ کاانکار قرآن کے انکار کے