کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 156
۳۔ وہ قراءت صحیح متواتر سند سے ثابت ہو۔ اس اُصول کے مطابق جو بھی قراءت ہوگی وہ قراءت صحیحہ اور ان حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا، مسلمانوں کو اس کاقبول کرنا واجب ہے اور تینوں شرائط میں سے کسی شرط میں خلل آجائے تو وہ قراءت شاذہ، ضعیف یا باطل ہوگی۔ [النشر: ۱/۹ ] واضح رہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جب سرکاری طور پر قرآن مجید کے نسخے تیار کرائے تو ان کے لیے ایسا رسم الخط تجویز کیاگیا کہ تمام متواتر قراءت اس رسم الخط میں سما گئیں اور جو قراءات رسم الخط میں نہ آسکتی تھی انہیں محفوظ رکھنے کی یہ طریقہ اختیار کیاگیا کہ ایک نسخہ ایک قراءت کے مطابق اور دوسرانسخہ دوسری قراءت کے مطابق تحریر کیا۔ اس طرح سات نسخے تیار کئے گئے جو مکہ معظمہ، مدینہ طیبہ، یمن، بحرین، بصرہ اورشام بھیجے گئے اور ایک نسخہ اپنے لیے مخصوص کیا جسے المصحف الإمام کہا جاتا ہے۔ ان نسخوں کے ساتھ قراء حضرات بھی روانہ کئے تاکہ صحیح طریقہ سے لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیں ، تدوین قرآن کے وقت عربی کتابت نقاط و حرکات سے خالی ہوتی تھی، اس لیے ایک ہی نقش میں مختلف قراءات کے سما جانے کی گنجائش تھی جیسا کہ فـسـوا کو فتبینوا اور فتثبتوا دو طرح پڑھا جاتا ہے۔ یہ بات کہ تمام قراءات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تیار کردہ مصاحف میں سما جاتی ہیں ہم اس کی مزید وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں ۔ سورہ فاتحہ کی ایک آیت ’’مالک یوم الدین‘‘ ہے۔اس آیت میں لفظ مالک کو ملک اور مالک دونوں طرح پڑھا گیا ہے اور یہ دونوں قراءت متواتر ہیں ، روایت حفص میں اسے مالک میم پرکھڑا زبر اور روایت ورش میں اسے ملک میم پر زبر کے ساتھ پڑھا گیا ہے، عربی زبان میں یہ دونوں الفاظ ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوئے ہں یعنی روز جزاء کامالک یاروز جزاء کا بادشاہ، جو کسی علاقہ کا بادشاہ ہوتا ہے وہ اس کا مالک ہی ہوتاہے، لیکن جس مقام میں اختلاف قراء ا ت کے متعلق متواتر سند نہ ہو وہاں رسم الخط میں گنجائش کے باوجود دوسری قراءت پڑھنا حرام اورناجائز ہے مثلاً سورۃ الناس کی دوسری آیت رسم عثمانی کے مطابق اس طرح ہے۔﴿ملک الناس﴾ اس مقام پر تمام قراء ملک الناس ہی پڑھتے ہیں اسے کوئی بھی مالک الناس کھڑے زبر کے ساتھ نہیں پڑھتا کیونکہ یہاں اختلاف قراءت منقول نہیں ہے، اسی طرح سورۃ آل عمران کی آیت نمبر ۲۶ میں ہے: ’’مَالِکُ المُلکِ‘‘ اسے کھڑے زبر کے ساتھ پڑھا گیاہے، اسے کوئی بھی ’’مَلِک المُلکِ‘‘ میم کی زبر کے ساتھ نہیں پڑھتا ،کیونکہ یہاں بھی اختلاف قراءات منقول نہیں ہے، دراصل قراءت متواترہ کااختلاف، قرآن کریم میں کوئی ایساردوبدل نہیں کرتا، جس سے اس کے مفہوم یا معنی میں کوئی تبدیلی آجائے یا حلال چیز حرام ہوجائے بلکہ اختلاف قراءت کے باوجود قرآن، قرآن ہی رہتا ہے اور اس کے نفس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، بہرحال قراءات متواترہ جنہیں اَحادیث میں احرف سبعہ سے تعبیر کیا گیاہ وہ آج بھی موجود ہیں اور مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں اور ان کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے چونکہ ہمارے ہاں برصغیر میں روایت حفص پر مشتمل مصاحف ہی دستیاب ہیں اور انہیں قرآن کے مترادف خیال کیا جاتاہے اور اس بنیاد پر دوسری متواتر قراءات کا انکار کردیا جاتا ہے جبکہ حقیقت حال اس کے برعکس ہے، مغرب، الجزائر، اندلس اور شمالی افریقہ میں قراءت نافع بروایت ورش عام ہے اور وہاں اس کے مطابق مصاحف شائع ہوتے ہیں ۔