کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 155
بہرحال سبعہ احرف کی مراد میں اختلاف کے باوجود دو باتوں پر اتفاق ہے۔
٭ قرآن مجید کو سبعہ حروف سے پڑھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ قرآن مجید کے ہر لفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے، کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشتر کلمات اس اصول کے تحت نہیں آتے۔
٭ سبعہ حروف سے مراد ان سات ائمہ کی قراءت ہرگز نہیں جو اس سلسلہ میں مشہور ہوئے ہیں بلکہ روایت کے اعتبار سے ان حضرات کی طرف قراءات کی نسبت کردی گئی ہے چنانچہ یہ نسبت اختیار ہے نسبت ایجاد نہیں ۔
امام جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو بہت مشکل خیال کرتاتھا حتیٰ کہ میں نے تیس سال سے زیادہ عرصہ اس پر غوروفکر کیا تو میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قراءات کا اختلاف سات وجوہ سے باہر نہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۱۔ معنی اور صورت خطی میں تبدیلی کے بغیر صرف حرکات میں اختلاف ہوگا جیسا کہ کلمہ’بخل‘ کو چار اور کلمہ ’یحسب‘ کو دو طرح پڑھا گیا ہے۔
۲۔ صورت خطی میں اختلاف کے بجائے صرف معنی میں اختلاف ہوگا جیسا کہ ﴿فَتَلَقّٰی آدَمَ مِنْ رَبِّہِ کَلِمَاتٌ﴾ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے:۱۔آدم کی رفعی اورکلمات نصبی حالت، ق ۲۔ آدم کی نصبی اور کلمات کی رفعی حالت۔
۳۔ صورت خطی کے بجائے حروف میں تبدیلی ہوگی جس سے معنی میں بدل جائے جیسا کہ تبلوا کو تتلوا پڑھا گیا ہے۔
۴۔ صورت خطی کے بجائے حروف میں تبدیلی ہوگی، لیکن اس سے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی جیسا کہ بصطۃ کو بسطۃ اور الصراط کو السراط پڑھا گیا ہے۔
۵۔ صورت خطی اور حروف دونوں میں تبدیلی ہوگی جس سے معنی میں تبدیلی ہوگی جیسا کہ أشد منکم کو أشد منھم پڑھا گیا ہے۔
۶۔ تقدیم و تاخیر کااختلاف ہوگا جیسا کہ فَیَقْتُلُونَ وَ یُقْتَلُونَ میں ہے، اس میں پہلا فعل معروف اور دوسرا مجہول ہے، اسے یوں بھی پڑھا گیا ہے۔ فَیُقْتَلُونَ وَیَقْتُلُونَ
۷۔ حروف کی کمی و بیشی میں اختلاف ہوگا جیساکہ وأوصیٰ کو ووصّی پڑھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اظہار و ادغام، روم و اشمام، تفخیم و ترقیق ، مدوقصر، امالہ و فتح، تخفیف و تسھیل اور ابدال و نقل وغیرہ جسے فن قراءات میں اصول کا نام دیا جاتاہے۔ یہ ایسااختلاف نہیں جس سے معنی یا لفظ میں تبدیلی آتی ہو۔ [النشر: ۱/۲۶]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھا کہ ہرسال رمضان المبارک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ قرآن کریم کا دور کیا کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے دومرتبہ دور کیا، اس موقع پر بہت سی قراءات منسوخ کردی گئیں اور چند قراءات باقی رکھی گئیں جو اب تک متواتر چلی آرہی ہیں ان قراءت کے مستند ہونے کے لیے درج ذیل قاعدہ ہے:
۱۔ وہ قراءت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگرچہ یہ موافقت کسی بھی طریقہ سے ہو۔
۲۔ وہ مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک مصحف کے مطابق ہو خواہ یہ مطابقت احتمالاً ہو۔