کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 154
سلیمان بن حرد، ابوجہم انصاری، اور اُم ایوب انصاریہ] پیش پیش ہیں ۔ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بے شمار تابعین عظام رحمہم اللہ اور اَن گنت ائمہ حدیث نے متعدد اَسانید کے ساتھ اس حدیث کونقل کیا ہے۔
اس متواتر حدیث کے کسی طریق میں کوئی بھی ایسی صریح عبارت موجود نہیں جو سبعہ احرف کی مراد کو متعین کردے جب کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت کے وقت کسی بات کی وضاحت کو مؤخر نہیں کرتے۔ دراصل سبعہ اَحرف کی وضاحت نہ ہونے کی صرف یہ وجہ ہے کہ نزول قرآن کے وقت تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک سبعہ اَحرف کا مفہوم اس قدر واضح تھا کہ کسی صحابی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی اورنہ ہی وہ اس مفہوم کو سمجھنے کے لیے کسی کے محتاج تھے، اگر ان کے ذہن میں سبعہ احرف کے متعلق کوئی اشکال ہوتا تو وہ ضرور اسے حل کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے،حالانکہ یہ حضرات قرآن کریم کے متعلق اس قدر حساس تھے کہ سبعہ احرف کے متعلق اگر کسی نے کسی دوسرے قاری سے مختلف انداز پر قراءت سنی تو فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع فرمایا جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے وہ خود اپنی سرگزشت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں :
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں حضرت ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کو سورۃ الفرقان پڑھتے ہوئے سنا، میں نے جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ متعدد الفاظ اس طرح تلاوت کررہے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں سکھائے تھے چنانچہ میں حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کوبحالت نماز میں روک لینے پر تیار ہوگیا، لیکن میں نے بمشکل خود کو اس اقدام سے باز رکھا، جونہی انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے انہیں ان کے کپڑوں سے کھینچا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلا اس دوران میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو یہ سورت اس انداز میں پڑھنے کی کس نے تعلیم دی ہے؟ انہوں نے جواب دیاکہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس انداز سے پڑھایا ہے، میں نے کہا مجھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت اس طریقہ سے نہیں پڑھائی جس انداز سے میں نے تجھے تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے۔چنانچہ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے اسے سورہ الفرقان ایسے طریقہ پر پڑھتے ہونے سنا کہ جوآپ نے مجھے اس انداز سے نہیں پڑھائی ، آپ نے فرمایا:’’ہشام رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دو‘‘ میں نے اسے چھوڑا تو آپ نے فرمایا:ہشام! تم پڑھو، تب ہشام رضی اللہ عنہ نے اس طرح تلاوت کی جس طرح میں نے اسے پڑھتے ہوئے سنا تھا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سورت اسی طرح نازل کی گئی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھنے کاحکم دیا تو میں نے اسی انداز سے اسے تلاوت کیا جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھائی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح بھی نازل کی گئی ہے، پھر فرمایا یہ قرآن سات حروف پر نازل کیا گیاہے لہٰذاجو حروف تمہیں آسان معلوم ہوں ، اس کے مطابق قرآن کو تلاوت کرو۔‘‘
[صحیح البخاري، فضائل قرآن :۵۰۴۱]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قراءات کی تمام وجوہ منزل من اللہ ہیں اور ان وجوہ کا اختلاف، تناقض، تضاد کانہیں بلکہ یہ تنوع اور زیادتی معنی کی قسم سے ہے، اس تنوع کے بے شمار فوائد ہیں جو فن توجیہہ القراءات میں بیان ہوئے ہیں اور اس فن میں مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں ۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور کے بعد اس کی تعین میں بہت اختلاف پیداہوا، علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں علماء اُمت کے چالیس اَقوال کا ذکر کیا ہے، بعض لوگوں نے اس سے سات لغات مراد لی ہیں ، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ عنہ دونوں قریشی تھے، ان دونوں کی لغت ایک تھی، اس کے باوجود ان کا اختلاف ہوا، یہ کوئی معقول بات نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی آدمی کو قرآن مجید ایسی لغت میں سکھائیں جو اس کی لغت نہ ہو،