کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 153
[۷]
سوال: کیا قراءات قرآن جو مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں ، ان کا قرآن و سنت میں کوئی ثبوت موجود ہے؟ اس سلسلہ میں اسلاف اُمت کی آراء سے بھی آگاہ کریں نیز جو لوگ قرآن مجید کی قراءات متواترہ کاانکار کرتے ہیں ، شرعی اعتبار سے ان کے متعلق کیا حکم ہے؟ اُمت کو ایسے لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہئے؟ اپنی قیمتی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں ۔ (ادارہ محدث، لاہور)
جواب: اس پُرفتن دور میں جہاں آزادی تحقیق کے نام سے صحیح اَحادیث کاانکار بلکہ استخفاف کیا جاتاہے وہاں قراءات متواترہ کو بھی تختہ مشق بنایا جاتاہے اور انہیں سینہ زوری کے ساتھ فتنہ عجم کی باقیات قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ ہمارے ہاں برصغیر میں قرآن مجید کی جو روایت پڑھی پڑھائی جاتی ہیں وہ قراءات کے مشہور امام عاصم رحمہ اللہ کی روایت حفص ہے، اس روایت کے مطابق مصاحف لکھے اور پڑھے جاتے ہیں ۔ یہ قراءت بھی قراءات عشرہ متواترہ کا حصہ ہے، اسے تسلیم کرنا اور باقی قراءات کاانکار کرنا علم و عقل سے عاری ہونے کی بدترین مثال ہے۔ شمالی افریقہ اور بعض دوسرے ممالک میں روایت ورش کے مطابق مصاحف لکھے اور پڑھے جاتے ہیں اور وہاں کی حکومتیں بھی سرکاری اہتمام کے ساتھ انہیں شائع کرتی ہیں ۔ میری ذاتی لائبریری میں روایت ورش کا مصحف موجود ہے، حال ہی میں سعودی عرب کے مجمّع الملک فہد مدینہ طیبہ نے لاکھوں کی تعداد میں روایت ورش، روایت قالون اور روایت دوری کے مطابق مصاحف ان مسلم ممالک کے لیے طبع کئے ہیں ، جن میں ان کے مطابق قراءت کی جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی زبان مختلف علاقوں اور قبیلوں میں استعمال ہو تو اس کے بعض الفاظ کے استعمال میں اتنا فرق آجاتا ہے کہ ایک قبیلہ دوسرے قبیلے والوں کے لب و لہجہ اور ان کے ہاں مستعمل الفاظ کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے، اس حقیقت کو گجرات، گوجرانوالہ، لاہور ، اوکاڑہ، خانیوال، ملتان، مظفرگڑھ، ڈیرہ غازی خان اور بہاولپور کے اضلاع میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ نزول قرآن کے وقت عربی زبان قریش، ہذیل، تمیم، ربیعہ، ہوازن اور سعدبن ابی بکر جیسے بڑے بڑے قبیلوں میں بولی جاتی تھی، لیکن بعض قبائل عربی الفاظ اور ان کے مواد و استعمال کے سمجھنے سے قاصر رہتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان قبائل پر آسانی کرتے ہوئے قرآن کریم کوسات حروف میں نازل فرمایا ہے تاکہ قرآن کریم کے اوّلین مخاطبین تکلف کا شکار نہ ہوں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے:
’’قرآن کریم سات حروف میں نازل کیا گیاہے لہٰذا جو حرف تمہیں آسان معلوم ہو، اس کے مطابق تلاوت کرو۔‘‘
[صحیح البخاري، فضائل قرآن:۴۹۹۲]
یہ حدیث محدثین کے ہاں ، ’سبعہ احرف‘ کے نام سے مشہور ہے اور ائمہ حدیث نے اسے اپنی اپنی تالیفات میں ذکر کرکے ’حدیث متواترہ‘ کا درجہ دیا ہے چنانچہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابی داؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، مؤطا امام مالک، مسند امام احمد، سنن بیہقی، مستدرک حاکم اورمصنف عبدالرزاق میں یہ حدیث بیان ہوئی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بائیس سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس حدیث کو بیان کرتے ہیں ، جن میں عمر بن خطاب، عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب،ابوہریرہ، عبداللہ بن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، عبداللہ بن عباس، حذیفہ بن یمان، انس بن مالک، عبدالرحمن بن عوف، عبادہ بن صامت، ابوطلحہ انصاری، سمرۃ بن جندب، عمرو بن عاص، ہشام بن حکیم،