کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 151
سبعہ احرف سے مراد لغات اورلہجات ہی ہیں ، اسی رائے پر طبیعت مطمئن ہوتی ہے اور یہی رائے قرین عقل ودلیل معلوم ہوتی ہے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جمع ثانی کے موقع پر تینوں قریشی علماء قرآن سے کہا تھا: إذا اختلفتم أنتم وزید في شيء فاکتبوہ بلغۃ قریش فإنہ نزل بلغتھم ’’یعنی جب تمہارا اور زید بن ثابت کا کسی لفظ کے بارہ میں اختلاف ہو تو اسے قریش کے طریقہ کے مطابق لکھو، کیونکہ قرآن انہیں کی زبان میں نازل ہوا۔‘‘ واضح رہے کہ قرآن کے قریش کی زبان میں نازل ہونے کی بناپرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بلغتھم کیا ہے۔واللہ اَعلم قراءات عشرہ‘ ، ’سبعہ اَحرف‘ کی روایات کا نام ہے: بعض حضرات اس وہم کاشکار ہوئے کہ سبعہ قراءات ائمہ قراءات کی قراءات کا نام ہے ان کی شہرت توصرف روایت کی وجہ سے ہوئی ہے، سبعہ احرف کی روایات عشرہ قراءات کا سبب بنی ہیں ۔ اصلاً قراءات عشرۃ اور روایات کا مصدر و منبع وحیٔ الٰہی ہے اور پوری دس قراءات متواترہ قرآن کریم ہیں ، ائمہ قراءات کاان میں کوئی دخل نہیں وہ تو صرف ناقل ہیں اس کے سوا ان کی کوئی حیثیت نہیں ، انہیں ان قراءات کا موجد سمجھنا تو ایسے ہے جیسے محدثین رحمہم اللہ کو اَحادیث کا واضع کہا جائے اور ایسا ہرگز نہیں ہے۔ سلف کا مؤقف صحابہ و تابعین کرام سے لے کر عہد ہر عہد اسلامی میں ان قراءات کو قرآن کریم کاحصہ سمجھا گیا، اَئمہ حدیث تفسیر نے اپنی اپنی کتابوں میں حسب اِستطاعت انہیں نقل بھی کیا ان سے استدلال بھی کیا، جو اس امر کی دلیل ہے کہ انہیں ان سے مکمل اتفاق تھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م۷۲۸ھ) سے سوال کیاگیا: جمع القراءات السبع ھل ھو سنۃ أم بدعۃ، ھل جمعت علی عھد رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم وھل لجامعھا مزید ثواب علی من قرأ بروایۃ أم لا؟ ’’سبعہ قراءات کو جمع کرنا سنت ہے یا بدعت؟ اور کیا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں جمع کی گئیں یانہیں ؟ اور کیا ان سب قراءات کے مطابق پڑھنے والے کو صرف ایک قراءت کے مطابق اجر وثواب میں فوقیت حاصل ہے یا نہیں ؟‘‘ تو امام صاحب نے جواب میں فرمایا: الحمد اللّٰہ ! أما نفس معرفۃ القراءات وحفظھا فسنّۃ متبعۃ یأخذھا الآخر عن الأول فمعرفۃ القراءات التی کان النبي ! یقرأ بھا أو یقرّھم علی القراءۃ بھا أو یأذن لھم وقد أقرئوا بھا سنۃ والعارف في القراءات الحافظ لھا، لہ مزیۃ علی من لم یعرف ذلک أو لا یعرف إلا قراءۃ و احدۃ [مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہ :۱۳/۴۰۴] ’’الحمدﷲجہاں تک ان قراءات کا علم حاصل کرنے اور انہیں حفظ کرنے کاتعلق ہے تو یہ واجب الاتباع سنت ہے جو خلف نے سلف سے اَخذ کی ہے، چنانچہ ان قراءات کا علم جن کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے اور صحابہ کو ان کے مطابق پڑھتے ہوئے سنتے یاانہیں ان کے مطابق پڑھنے کی اِجازت دیتے تھے اور انہوں نے ان کے مطابق قراءت کی تو یہ سنت ہے اور ان قراءات کے عالم اور حافظ کو علم نہ رکھنے والے یاصرف ایک قراءت کا علم رکھنے والے پر فضیلت حاصل ہے۔‘‘