کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 150
قرآن کریم کے الفاظ و حروف اور اس کی قراءت کے مختلف طرق اور اس کی مختلف روایات جو قراءات عشرہ کے نام سے معروف ہیں جوحدیث میں مذکور’سبعہ احرف‘ کی عملی تفسیر وتعبیر ہے، اس کے ثبوت کے لیے متواتر کا لفظ صرف تفہیم اورعلمی دنیا کے رسم کے لیے ہے ورنہ اس کا ثبوت آسمان کی بلندی اور زمین کی پستی سے بھی زیادہ واضح ہے۔ تواتر کی ہر تعریف قرآن حکیم اور اس کی قراءات کے ثبوت سے کم تر ہے، اس کا ثبوت اس سے بہت اعلیٰ و بالا ہے۔ قرآن کریم کے ثبوت پرہمارا اطمینان و اعتماد ہمارے ایمان کا جزو لازم ہے۔
قراءاتِ عشرہ متواترہ کا حکم
اُمت اسلامیہ کے اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن کریم ’سبعۃ احرف‘ پر نازل ہوا ہے اس کی صراحت اَحادیث نبویہ میں آچکی ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق اختلافات منقول ہیں ، حدیث میں ہے:
عن ابن عباس أن رسول اللّٰہ ! قال: أَقْرَأَنِي جِبْرِیلُ عَلَیٰ حَرْفٍ فَلَمْ أَزَلْ أَسْتَزِیدُہٗ حَتَّی انْتَھَیٰ إِلَیٰ سَبْعَۃِ أَحْرُفٍ [أخرجہ البخاري في صحیحہ، الفضائل، باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف]
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام نے مجھے ایک حرف پر قرآن پڑھایا، تو ان سے مراجعت کی اور میں مزید حروف پر پڑھنے کا مطالبہ کرتا رہا اور وہ بھی زیادہ کرتے رہے، حتیٰ کہ سات حروف پر پڑھنا ٹھہرا۔‘‘
ایسے ہی حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں مروی ہے، اس میں سات حروف پر پڑھنے کو آخری قراءت بتایا گیا ہے۔ [صحیح مسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین، باب بیان أن القرآن علی سبعۃ أحرف وبیان معناہ]
’سبعۂ احرف‘ سے کیا مراد ہے؟
اس میں اہل علم کی دو رائیں ہیں ،اکثر اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ اس سے مراد حقیقتاً سات کا عدد ہے اور ’احرف‘سے مختلف قبائل کے لہجات اور ان کی لغات مراد ہیں جن کی لغات کے مطابق قرآن نازل ہوا ہے۔
اوروہ : ۱۔ قریش ۲۔ ہذیل ۳۔ ثقیف ۴۔ ہوازن
۵۔ کنانہ ۶۔ تمیم ۷۔ اور یمن ہیں ۔
یااس سے مراد:
۱۔ قریش ۲۔ ہذیل ۳۔ تمیم ۴۔ ازو د
۵۔ ربیعہ ۶۔ ہوازن ۷۔ سعد بن بکر ہیں ۔
یہ رائے سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ (۱۹۸ھ)، ابوعبیدقاسم بن سلام رحمہ اللہ (م۲۲۴ھ) ، علامہ طبری رحمہ اللہ (م۳۱۰ھ)، ابوشامہ رحمہ اللہ (م۶۶۵ھ)، امام قرطبی رحمہ اللہ(م۶۷۱ھ) اور دیگر متعدد قدیم و جدیداہل علم سے منقول ہیں ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [جامع البیان للطبری:۱/۲۱،۶۷، المرشد الوجیز لأبي شامۃ :۹۷، الجامع لأحکام القرآن للقرطبي:۴۱،۴۶ والأحرف السبعۃ لحسن ضیاء الدین عتر]
یہی رائے زیادہ وجیہ معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ مذکورہ بالا حدیث کے تمام طریق میں سبعہ اَحرف کا لفظ موجود ہے اس کاواضح مفہوم وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔