کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 148
ہے اس لیے کہ ان کا مرجع سنت اوراتباع ہے محض رائے اور ابتداع نہیں ۔‘‘ [الفتاویٰ :۱۳/۴۰۱] سوال نمبر۲: اس سلسلہ میں اسلاف اُمت کی رائے کیا ہے؟ الجواب :بعض آراء کا تذکرہ اوپر ہوچکا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ نے اس پر ایک مبسوط رائے تحریر کی ہے، لکھتے ہیں : علماء کی ایک تعداد نے صراحت کی ہے کہ یہ قراء اتیں جو قراء سبعہ کی طرف منسوب ہیں یہ وہ سات حروف نہیں ہیں جن کی قراءت کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو وسعت دی گئی تھی یہ ان سات میں سے ایک حرف کی طرف راجع ہیں یعنی جس حرف پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصحف کو جمع کیا ابن الناس وغیرہ نے اس کی صراحت کی ہے یہ مشہور قراء تیں ہیں جنہیں ائمہ قراء نے اختیار کیا ہے اور ہر ایک کا انتخاب ان کے نزدیک احسن اور اولیٰ کا ہے، ان کے اختیار کردہ کی نسبت ان کی طرف ہوگئی ہے اور ان میں سے کسی نے بھی دوسرے کے طریق قراءت کو ممنوع قرار نہیں دیا اورنہ ہی انکار کیاہے بلکہ اسے بھی درست اور جائز قرار دیا ۔ اسی وجہ سے دو دو اور زیادہ کا انتخاب بھی(بعض الفاظ میں )مروی ہے اور سب صحیح ہے۔ ان ادوارمیں مسلمانوں کااجماع رہا ہے کہ ائمہ قراء سے مرویہ قراءات صحیحہ پر ہی اعتماد کیا جائے۔ اس طرح قرآن کی حفاظت کا جو وعدہ کیاگیا تھا وہ پوراہوچکا ہے۔ ائمہ متقدمین اور محقق فضلاء کا نظریہ یہی ہے جیسا کہ ابوبکر بن الطیب رحمہ اللہ اور طبری رحمہ اللہ وغیرہ ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں گزشتہ اَدوار میں تمام شہروں میں سبعہ قراء کی قراءت پر اتفاق رہا ہے،اسی کے مطابق نماز کی ادائیگی ہوتی رہی ہے کہ یہ قراء تیں بہ اجماع ثابت شدہ ہیں ۔ [مقدمہ جامع أحکام القرآن :۱ /۴۶] ابن خلدون رحمہ اللہ لکھتے ہیں : قرآن اللہ کا کلام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ دفتینکے مابین لکھا ہوا ہے اور وہ امت میں متواتر ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے بعض الفاظ(سب اللہ کی طرف سے نازل کردہ) کے اختلاف اور مختلف لہجات کے ساتھ روایت کیااورنقل کیا۔ اور بالآخر اداء و مخارج کے اعتبار سے سات قراء تیں مقرر ہوگئیں جن کی نقل متواتر ہوتی آئی اورہر قراءت پر ایک جم غفیر کی روایت نے شہرت پائی اور اُصولا سات قراء تیں معروف ہوئیں اور سات کے علاوہ کچھ قراء تیں بھی لاحق ہوئیں مگر وہ اتنی قابل اعتماد نہیں البتہ سات قراء تیں کتب میں معروف ہیں ۔ اھ [مقدمہ ابن خلدون] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’ ’نماز میں اور نماز کے علاوہ ان قراءات کا پڑھناجائز ہے جو رسم مصحف کے موافق اور ثابت ہیں ۔ ‘‘ [الفتاوی:۱۳ /۴۰۳] سوال نمبر ۳: جو لوگ قرآن مجیدکی قراءات متواترہ کاانکارکردے ہیں شرعی اعتبار سے ان کاکیا حکم ہے ۔امت کوان کے ساتھ کیابرتاؤ کرناچاہئے۔ الجواب: تفصیل بالا سے واضح ہے کہ قراءات متواترہ کاانکار درحقیقت قرآن کا انکار ہے کہ قرآن عظیم وہ کتاب ہے جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین عظام رحمہم اللہ اور ائمہ قراء نے پڑھا اورجو دفتین میں محفوظ ہے۔ اس میں انداز قراءۃ کا تنوع ہے مگر معنی میں کوئی تضاد نہیں ، بلکہ بعض اوقات نئے معانی اور احکام بھی ان میں سمجھے جاتے ہیں لہٰذا کسی بھی ثابت شدہ قراءت کا انکار درحقیقت قرآن کاہی انکار ہے، جو کہ کفر ہے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: