کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 146
میں اختلاف تھا۔
علامہ مناع القطان لکھتے ہیں :
’’سبعہ احرف سے عرب کی سات لغات مراد ہیں جو کہ ایک معنی پر دال ہیں ۔ادلہ صحیحہ اسی رائے کو درست ثابت کرتے ہیں اور یاد رہے ان حروف میں پڑھنے والے کی رائے اور اجتہاد کو دخل نہیں تھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنے ہوئے الفاظ پر ہی قراءت ہوتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت تھی کہ اس بارے اختلاف اور انکار نہ کیا جائے۔ البتہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں نئی نسل اورنئے مسلمانوں کی کثرت کی وجہ سے اختلافات نمایاں ہونے لگے اور کئی مواقع پر محسوس کیا گیا کہ کسی ایک حرف پرامت کو اکٹھا کیا جائے۔‘‘ [مباحث في علوم القرآن ص۱۶۲]
انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے وہ فتح آرمینیا اورآذربائیجان کے غزوات میں شریک ہوچکے تھے۔ عرض کی عثمان رضی اللہ عنہ ! اُمت کو اختلاف سے بچالو، یہود و نصاریٰ کی طرح ان میں اختلاف پیدا نہ ہوجائے۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے اُم المومنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہ صحف منگوائے(جو زید رضی اللہ عنہ اوران کے ساتھیوں نے مدوّن کئے تھے)اور زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعیدبن عاص اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اس کے متعدد نسخے تیار کرو۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے(مؤخر الذکر) تینوں قریشیوں کو حکم دیا کہ تمہارے اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مابین اختلاف کی صورت میں ’لسان قریش‘ میں لکھو کہ ان کی زبان میں قرآن نازل ہوا ہے۔ [صحیح بخاری کتاب التفسیر،باب جمع القرآن]
اب چند ایک اَمثلہ ملاحظہ فرمائیں ۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
﴿ویقرأ مرساہا و مجراہا و مجریہا و مرسیٰہا﴾(تفسیر سورہ ہود) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سورہ یوسف کی آیت میں ﴿حَتَّیٰ إِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَظَنُّوا أنَّہُمْ قَدْ کُذِّبُوا﴾پڑھتی تھیں ۔ نیز فرماتے ہیں :﴿وقال فَرَضْنَاہَا أنزلنا فیہا فرائض مختلفۃ ومن قرأ فَرَّضْنَاہَایقول فرضناعلیکم وعلی من بعدکم ﴾
اس اختلاف میں لہجات کااختلاف بھی آتا ہے۔
قولہ تعالیٰ: ہل أتاک حدیث موسیٰ میں اتی اور موسیٰ میں بعض امالہ کرتے ہیں اوربعض فتح پڑھتے ہیں اسی طرح اظہار و ادغام، ہمز و تسہیل اور اشمام وغیرہ میں لہجات کااختلاف ہے، اس تنوع کی اجازت ایک حقیقت ثابتہ تھی جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’باب نزول القرآن بلسان قریش والعرب قرآنا عربیا بلسان عربی مبین‘‘ میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک بڑی تعداد نے قرآن پاک کی سورتیں لکھ رکھی تھیں ہر ایک نے وہی قراءت لکھی جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ مختلف حروف منزلہ کے مصاحف میں رہنے سے اختلاف کی خلیج وسیع ہوسکتی تھی۔ بناء بریں عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں ختم کرکے ایک’المصحف‘ پر متفق کیااور اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہوگیا۔
عثمانی صحیفہ’الامام‘ میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ جس حد تک ممکن ہو مختلف حروف منزلہ اورلہجات رسم میں آسکیں ۔ لغت قریش پر تحریر کردہ ’المصحف‘کے بارے اَئمہ کرام قراء کی خدمات وقیع ہیں ۔ جس طرح فہم قرآن مقدس کے لیے لغت عرب کا تحفظ ہوا ہے اور علوم حرف، نحو اور بلاغہ مدون ہوئے ہیں جن سے علی وجہ البصیرۃ الفاظ کی تصریف کی درستی،جملوں کی ترکیب کی تصویب اور وجوہ اعجاز کا تعین سمجھا جاتاہے۔