کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 144
سبب تنوع القراءات فیما احتملہ خط المصحف ھو تجویز الشارع وتسویغہ في ذلک لھم إذ مرجع ذلک إلی السنۃ والإجماع لا إلی الرأی والابتداع اور حافظ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : واتفقوا أن کل ما فی القرآن حق وأن من زاد فیہ حرفا ما أو غیر قراءات المرویۃ المحفوظۃ المنقولۃ نقل الکافۃ أو نقص منہ حرفأ أو غیر فیہ حرفا مکان حرف وقد قامت علیہ الحجۃ أنہ من القرآن فتمادی متعمداً لکل ذلک عالما بأنہ بخلاف ما فعل فإنہ کافر۔[ملاحظہ مراتب الإجماع: ص ۱۷۴] کہ کوئی شخص بھی قرآن میں کسی ایک حرف کا اِضافہ کرے یا ان قراءت کو جو تواتر کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہوچکی ہیں تبدیل کرے یا کوئی حرف کم کرے یا کسی حرف کی تبدیلی کرے جس حرف کے قرآن ہونے کی دلیل قائم ہوچکی ہو اور عمداً ایساکرے تو وہ کافر ہے، اسی طرح علامہ ابن جزری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ أن الإجماع منعقد علی من زاد حرفاً وحرکۃ في القرآن أو نقص من تلقاء نفسہٖ مصرّا علی ذلک یکفّریعنی اس بات پر اُمت کا اجماع ہے کہ جو شخص قرآن ایک حرف کا، حرکت کا اضافہ یا کمی کرے اور اس پر مصر ہو تو وہ کافر ہے۔ بہرحال جو لوگ سبعہ و عشرہ قراءات جو کہ حدیث متواترہ کے ساتھ ثابت ہوچکی ہیں اورنمازوں میں پڑھی جاتی رہیں اور اس پر زمانے بیت گئے جانتے ہوئے ان کا علم رکھتے ہوئے ان میں سے کسی ایک قراءت کاانکار کرے تو یہ پورے قرآن کے انکار کرنے کے مترادف ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ کسی ایک پیغمبر کی تکذیب تمام انبیاء کی تکذیب کے مترادف ہے۔ جیساکہ قرآن میں ہے کہ ﴿کَذَّبَتْ قَوْمُ نُوْحِ الْمُرْسَلِیْنَ﴾[سورہ شعراء] ’’کہ اللہ کے سچے نبی نوح علیہ السلام کی تکذیب کو تمام نبیوں کی تکذیب کہا گیا۔‘‘ اسی طرح جو اللہ تعالیٰ کے کسی ایک نبی کی بھی تکذیب کرے گویا کہ وہ تمام انبیاءi کا مکذب ہے اسی طرح تواتر کے ساتھ نصوص قطعیہ سے ثابت شدہ قراءات ہیں کہ بعض قراءات کو مانتا اور بعض کا انکار کرتا ہے تو وہ اَلَّذِیْنَ جَعَلُوْا الْقُرْآنَ عِضِیْنَ کا مصداق ہے۔ أعاذنا منہ یعنی جیسا کہ یہود و نصاریٰ اور خواہش پرست گروہوں نے قرآن کے بعض حصوں کومانا اور بعض کاانکار کیا یہ لوگ اسی کے مصداق ہیں کہ ان لوگوں نے ان قراءت کے ساتھ اتفاق کیاجو ان کی آراء کے مطابق تھیں اور ان کا انکار کیا جو ان کی آراء کے مخالف تھیں ۔ بہرحال سبعہ قراء ا ت منزل من اللہ ہیں جواختلاف لغات اورلہجات پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ علامہ سبکی رحمہ اللہ نے إتحاف فضلاء للدمیاتی:۱/۹ میں تفصیل سے لکھا ہے اور وہ سات قراء تیں جوکہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ نے لکھی ہیں اور وہ تین جوکہ ابوجعفر خلف اور یعقوب رحمہم اللہ سے منسوب ہیں یہ سب قراءات متواترہ ہیں ان میں سے کسی سے انحراف کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں ہے ،کیونکہ یہ تمام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرمنزل من اللہ ہیں ان میں کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا کرنا تواللہ تعالیٰ کی اس محقق مؤکد خبر ﴿إنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ﴾کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ جب کہ تمام مسلمان اہل سنت کے نزدیک اللہ کی خبر میں کبھی بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا ان قراءات میں سے بعض کاانکار کرنا یہ اہل اسلام خواص و عوام کسی مسلمان کے لیے بھی جائز نہیں ہے اور یہ اہل ایمان کے راستے کے خلاف ہے۔ لہٰذا قراءت قرآنیہ اور قرآن مجید کو پڑھنے کے مختلف لہجات جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور ان پر اُمت کااجماع ہوچکا ہے اب کوئی شخص ان تمام یا کسی ایک کاانکار کرتا ہے تو وہ بالاجماع ضال اور سبیل المؤمنین کا تارک