کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 143
أحرف میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی روایت فتح الباري :۹/۲۳]
نیز صحیح مسلم رقم الحدیث ۱۸۹۴،۱۸۹۷ اور سنن ابی داؤد میں امام صاحب نے باب أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف کا باقاعدہ باب باندھا ہے اور اس میں متعدد اَحادیث سے قراءت متعددہ ثابت کی ہیں ۔ ملاحظہ ہو ابوداؤد مع عون المعبود:۱/۵۴۹ اور اسی طرح صحاح میں سے سنن نسائی :۱/۱۱۵۔اسی طرح امام ترمذی رحمہ اللہ نے کتاب القراءۃ میں نیزامام ابوداؤد رحمہ اللہ نے کتاب الحروف والقراءت کے نام سے باب قائم کیا ہے جس میں سبعہ اَحرف سے متعلقہ اَحادیث کا اندراج کیاہے۔ بہرحال موجودہ قراء ا ت اَئمہ قراء کے قیاس، ان کے اجتہادات اور آراء کی مرہونِ منت نہیں ہیں بلکہ اَحادیث صحیحہ متواترہ سے ثابت ہیں ۔ اَجلہ صحابہ اس کے رواۃ ہیں ،چنانچہ قرآن کے بہت بڑے قاری اُبی بن کعب، ابن عباس، عبدالرحمن بن عوف ، عثمان بن عفان، عمر بن خطاب ، معاذ بن جبل ،ابوہریرہ اور ام ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہم جیسی عظیم شخصیات سے ثابت ہیں ۔ قراءات متعددہ والی اَحادیث تواتر لفظی کے ساتھ ثابت ہیں ۔ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے بڑی محنت کرکے ان سب کو جمع کیا ہے اور نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے حصول المأمول کے ص۳۵میں بیان کیا ہے کہ قد ادعی أھل الأصول تواتر کل واحد من السّبع والعشر۔
اسی طرح امام زرکشی رحمہ اللہ البرھان في علوم القرآن:۱/۲۲، ۳۲۱ میں بیان کرتے ہیں :
وقد انعقد الإجماع علی حجیّۃ قراءۃ القراء العشرۃ وإن ھذہ القراءات،سنۃ متبعۃ لا مجال للاجتہاد فیھا، وقال: القراءات توقیفیۃ ولیست اختیاریۃ خلافاً للجماعۃ
علامہ غزالی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے: حد الکتاب ما نقل إلینا بین دفتي المصحف علی الأحرف السبعۃ المشھورۃ نقلاً متواتراً [المستصفی:۱/ ۱۵۱]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے: لم ینکر أحد من العلماء القراءات العشر [ملاحظہ ہو مجموع الفتاویٰ:۳ /۳۹۳]
نیز ملا علی قاری رحمہ اللہ شرح فقہ الأکبرمیں لکھتے ہیں :
فالمتواتر لا یجوز إنکارہ لأن الأمۃ الإسلامیۃ قد أجمعت علیہ وتواتر القراءات من الأمور الضروریۃ التي یجب العلم بھا [شرح فقہ الأکبر،ص۱۶۷]
علامہ خطابی رحمہ اللہ اس مسئلہ میں فرماتے ہیں :
إن أصحاب القراءات من أھل الحجاز والشام والعراق کل منھم عزا قراء تہ التي اختارھا إلیٰ رجل من الصحابۃ قرأھا علی رسول اللّٰہ ! لم یستثن من جملۃ القرآن شیئاً [الاعلام:۲/ ۳۷۳ ]
نیز عظیم مفسر قرآن امام قرطبی رحمہ اللہ نے قراءت کے بارے میں لکھا ہے:
وقد أجمع المسلمون في ھذہ الأعصار علی الاعتماد علی ما صحّ عن ھؤلاء الأئمۃ مما رووہ من القراءات وکتبوا فی ذلک مصنفات فاستمر الاجماع علی الصواب وحصل ما وعد اللّٰہ بہ من حفظ الکتاب وعلی ھذا الأئمۃ المتقدمون والفضلاء المحققون۔ [ ملاحظہ ہو تفسیرقرطبی:۱/ ۴۶ ]
نیز حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموعہ فتاویٰ جلد ۱۳ صفحہ ۴۰۲ میں لکھاہے: