کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 139
مسلم :۳۰۲، ابن ماجہ:۶۴۴]حتیٰ کہ آسانی اور سہولت کی انتہا اس فرمان سے کردی۔((إن اللّٰہ عز وجل تجاوز لأمتی عما حدثت بہ أنفسھا ما لم تعمل أو تکلم بہ)) ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے میری اُمت کے دل میں پیداہونے والے خیالات سے اس وقت تک تجاوز کیاہے جب تک کہ وہ زبان پر نہ آئیں یااس کے مطابق عمل نہ کرلیاجائے۔‘‘[صحیح البخاري:۲۳۹۱، ۴۹۶۸، ۶۲۸۷، صحیح مسلم:۳۲۷، ۳۲۸، سنن أبوداؤد:۲۲۰۹،سنن الترمذی:۱۱۸۳،سنن النسائی:۳۴۳۴، ۳۴۳۵، سنن ابن ماجہ:۲۰۴۰، ۲۰۴۴] اسی طرح استعاذہ کے مختلف الفاظ، نماز میں رفع الیدین کرنے کی کیفیات،سینے پر ہاتھ باندھنے کے مختلف طریقے، تشہد میں بیٹھنے کی کیفیات اور درود پڑھنے کے متنوع صیغے دین اسلام کی آسانی کا بین ثبوت ہیں ۔ الغرض جہاں آسانی کے متنوع پہلوؤں کو پیش کیاوہاں ان کے منبع و مصدر قرآن مجید کو آسانی کامظہر بنایااور فرمایا: ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ﴾ ’’اور البتہ تحقیق ہم نے قرآن کو آسان کردیاہے ۔‘‘اور لسانی ادائیگیوں کی کلفتوں کو امت کے لیے تسہیلات میں بدلنے کے لیے ﴿فَاِنَّمَا یَسَّرْنَاہُ بِلِسَانِکَ﴾ ’’پس بے شک اس قرآن کو ہم نے آپ کی زبان کے ساتھ آسان کردیاہے،‘‘ کہہ کر پوری انسانیت کی آسانی کے لیے جبریل علیہ السلام کو اس وقت بھیجا جبکہ قرآن مجیدابتدائی تنزلات کی وادیوں کو طے کررہاتھا جس نے آکر کہا: ((إن اللّٰہ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرف۔ فقال أسأل اللّٰہ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم أتاہ الثانیۃ فقال إن اللّٰہ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی حرفین فقال أسأل اللّٰہ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الثالثۃ فقال إن اللّٰہ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی ثلاثۃ أحرف فقال أسأل اللّٰہ معافاتہ ومغفرتہ وإن أمتی لا تطیق ذلک ثم جاء ہ الرابعۃ فقال إن اللّٰہ یأمرک أن تقریٔ أمتک القرآن علی سبعۃ أحرف فأیما حرف قروُا علیہ فقد أصابوا)) [صحیح مسلم:۱۹۰۳،۱۹۰۴ سنن أبوداؤد: ۱۴۷۸، سنن الترمذي:۲۹۴۳، سنن النسائی: ۹۳۹، تحفۃ الأشراف:۱۰۵۹۱، ۱۰۶۴۲] ’’اللہ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ اپنی اُمت کو ایک حرف پر قرآن پڑھائیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ سے معافی اور بخشش کا طلب گار ہوں کیوں کہ میری اُمت ایک حرف پر پڑھنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ پھر جبریل علیہ السلام دوسری مرتبہ تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ آپ کوحکم دیتے ہیں کہ اپنی اُمت کودو حروف پر پڑھائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا کہ میں اللہ سے معافی اوربخشش کاطلب گار ہوں ، کیونکہ میری اُمت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔جبریل علیہ السلام تیسری مرتبہ تشریف لائے اورفرمایا کہ آپ کے لیے اللہ کاحکم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کو تین حروف پر قرآن کریم پڑھایے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا۔ پھر چوتھی مرتبہ جبریل علیہ السلام نے آکر کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ آپ اپنی اُمت کو سات حروف پر پڑھائیں اور جس حرف پر وہ پڑھیں گے، درستگی کو پالیں گے۔‘‘ چنانچہ حکم ربانی کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ حروف سکھلائے جنہوں نے نماز اور خارج نماز میں اس کو معمول بنایاجیساکہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ((سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسول اللّٰہ ! فاستمعت لقراتہ فإذا ھو یقرأ علی حروف کثیرۃ لم یقرئنیھا رسول اللّٰہ ! فکدت أساورہ فی الصلوٰۃ فتصبرت حتی سلم....))