کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 138
نُورَ اللّٰہ بِاَفْوَاہِہِم وَاللّٰہ مُتِمُّ نُورِہٖ وَلَوکَرِہَ الکٰفِرُونَ﴾[الصف ۲۸] (رئیس الافتاء) مولانا عبدالعزیز علوی (رکن) مولانا حافظ مسعود عالم صاحب (رکن)مولانا محمد یونس صاحب (رکن) مولانا عبدالحنان زاہد صاحب (دار الافتاء جامعہ سلفیہ، فیصل آباد) [۲] الحمد اللّٰہ الذی أنزل علی سبعۃ أحرف القرآن لیتمیز بھا أھل الجنان من أھل الخسران وجعلھا حجۃ علی أھل الشک والزیغ والنکران۔ أما بعد: دین اسلام ایک مکمل اور جامع نظام حیات ہے جس کا منبع و مصدر قرآن و سنت ہے، دین اسلام جہاں اللہ کے ہاں مقبول دین ہے وہاں اپنے خصائص تیسیر و آسانی اور وضاحت و تبیین کی وجہ سے مخلوق کے ہاں بھی مقبول و قابل عمل ہے۔ سرتاج رُسل صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خصوصیت کااظہار یوں فرمایا:((بُعِثْتُ بِالحَنِیفِیَّۃِ السَّمْحَۃِ)) ’’میں یک رو(واضح)اور آسان دین کے ساتھ مبعوث کیاگیاہوں ۔‘‘ [المسند:۵/۲۲۳۴۵، و معجم الکبیر:۸/۷۸۸۳] چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کے لیے عملی میدان میں آسانی کے مختلف پہلو پیش کئے جیسا کہ طہارت وپاکیزگی میں آسانی کا رویہ پیش کرتے ہوئے فرمایا:((إن بنی اسرائیل کان إذا أصاب ثوب أحدھم قرضہ)) ’’بنی اسرائیل کے کپڑوں کو جب نجاست لگتی تو وہ(پاکیزگی کے لیے اتنا)کپڑا کاٹ دیتے‘‘ [صحیح البخاري:۲۲۶] جب کہ اُمت محمدیہ کے لیے پانی کومطہر بنادیا ہے۔ عبادات میں آسانی کو باور کراتے ہوئے فرمایا:((وجعلت لی الأرض مسجدا وطھورا وأیما رجل من أمتی أدرکتہ الصلاۃ فلیصل)) ’’اور زمین میرے لیے پاک اور مسجد بنا دی گئی ہے اس لیے میری اُمت کے جس فرد کی نماز کا وقت(جہاں بھی) ہوجائے وہ اسے ادا کرلے۔‘‘ [صحیح البخاري: ۴۳۸، صحیح مسلم:۵۲۱] اور بیمار صحابی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرمایا:(( صل قائما فإن لم تستطع فقاعدا فإن لم تستطع فعلی جنب)) ’’کھڑے ہوکر نماز پڑھیے، اگر اتنی طاقت نہیں تو بیٹھ کر اور اگر اتنی بھی طاقت نہیں تو پہلو پر لیٹ کر پڑھ لیجئے۔‘‘ [صحیح البخاری:۱۱۱۷ والترمذی:۳۷۲، والارواء:۲۹۹] آسانی کے اس تسلسل کوبڑھاتے ہوئے یوں حکم فرمایا: ((إذا اشتد الحرّ فأبردوا بالصلاۃ)) ’’جب گرمی سخت ہوتو نماز کو ٹھنڈا کرلیاکرو۔‘‘ [صحیح البخاری: ۵۳۶، صحیح مسلم:۶۱۵] اوراُمت کے لیے نفلی عبادات میں آسانی کاعملی اُسوہ بھی پیش کیا۔ جیساکہ عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ:’’رأیت النبی! یصلی علی راحلتہ حیث توجھت بہ‘‘[صحیح البخاري:۱۰۹۳] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھاکہ آپ اپنی سواری پرنماز پڑھ رہے تھے، سواری جدھر کابھی رخ کرلیتی۔‘‘بلکہ اُمت کی آسانی اور سہولت کاخیال کرتے ہوئے بارش اورٹھنڈی راتوں میں آپ مؤذن کو حکم فرماتے کہ اذان کے آخر میں کہہ دو ’’ألا صلوا في الرحال‘‘ ’’اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔‘‘ [صحیح البخاري:۶۶۶] اور معاشرتی زندگی میں سہولت کو فروغ دینے کے لیے عورت کے مخصوص ایام میں اُمت کو یہودیوں کی شدت سے بچاتے ہوئے یوں رہنمائی فرمائی: (( اصنعوا کل شيء إلا النکاح)) ’’سوائے مجامعت کے تم قربت کرسکتے ہو۔‘‘ [صحیح