کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 137
حروف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوسکھلائے اورصحابہ کرام نے ان حروف کی تلاوت کی۔اورآپ کے دورمیں اگر مختلف حروف میں قراءت کرنے والوں کا اختلاف ہوا توآپ نے دونوں کی قراءت سن کر فرمایا: ’کلاہما محسن‘دونوں خوب کار ہواور فرمایا ایسے امور میں اختلاف نہ کرو اس قسم کا اختلاف پہلی امتوں کی تباہی کا باعث بنا ہے۔[صحیح البخاري:۲۴۱۰] اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی لفظی معنوی حفاظت کاوعدہ فرمایاہے ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَاالذِّکْرَوَإِنَّا لَہُ لَحٰفِظُونَ﴾ [الحجر:۹]اس لئے قرآن مجید کے الفاظ میں کمی وبیشی کاامکان نہیں ہے فرمایا ﴿لَا یَأتِیہِ البَاطِلُ مِنْ بَینِ یَدَیہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیلٌ مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ ﴾ [حم السجدۃ ۴۲] قرآن مجید کاجیسے نزول ہوا اسی طرح محفوظ ہے اوریہ حفاظت سینوں اورسفینوں دونوں میں موجود ہے ۔ مشہورقراء اتیں (سبعہ یاعشرہ وغیرہ )اسی طرح معروف ومشہور قراء کرام کی طرف منسوب ہیں جس طرح اَحادیث شریفہ کے مجموعے ان کے مدوّنین اورمحدثین کی طرف منسوب ہیں ۔مثلا بخاری شریف میں مکتوب احادیث کوامام بخاری رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردیاجاتاہے اورصحیح مسلم کے مجموعہ کوامام مسلم کی طرف۔یہی صورت حال دوسرے مجموعوں کی ہے حالانکہ یہ تمام احادیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ہیں ،لیکن ان محدثین رحمہم اللہ کے مجموعوں کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں اس لئے ان کی نسبت محدثین رحمہم اللہ کی طرف کردی جاتی ہے اسی طرح یہ قراءات قراء کرام سے منقول نہیں بلکہ ان قراء کرام کی وساطت سے ہم تک پہنچی ہیں اسلئے ان قاریوں کی طرف منسوب کردی گئی ہیں یہ مقصد نہیں ہے کہ یہ انہوں نے اپنے طورپیداکردی ہیں اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا کوئی تعلق یاواسطہ نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن مجید سیکھااور بلغوا عني ولو آیۃکے پیش نظر اس امانت کوآگے منتقل کیاہے اوریہ امانت امت کے تواترسے بفضل اللہ تعالیٰ محفوظ اورموجود ہے اوراس کی صراحت ائمہ محدثین رحمہم اللہ اور فقہاء نے اپنی تحریرات میں فرمائی ہے ۔ کما ہو البین في موضعہ قراءات کا انکار اسلام کے خلاف اٹھنے والی سازشوں کی ایک کڑی ہے جب کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ تمام قراءات جو اُمت کے عملی اور علمی تواترسے ثابت ہیں سب کی سب صحیح اورقرآن مجید ہیں ان میں کسی متواترقراءت کاانکاردرحقیقت قرآن مجید کا انکار ہے، مثلا اگربلاد مشرق میں امام حفص رحمہ اللہ کی قراءۃ پڑھی جاتی ہے توبلادِ مغرب میں روایت ورش یاروایت حمزہ کا رواج ہے ان میں سے کسی ایک کو صحیح اوردوسری کوغلط قراردینے کی صورت میں قرآن مجید کی ایک قراءت کاانکار لازم آئے گااور اس طرح قراءات کے انکارسے قرآن مجید میں شکوک وشبہات پید اکرنے کی مستشرقین کی سازش کوپنپنے کا موقع ملے گا۔ خلاصۂ کلام یہ کہ اُمت مسلمہ کے تواترسے ثابت تمام قراءات اپنے تمام حروف اورشکلوں اور ہیئات کے ساتھ قرآن مجید ہیں ان میں سے کسی ایک کا انکار اُمت مسلمہ کے تواترکا انکار ہے جو اتباع غیر سبیل المؤمنین ہونے کی وجہ سے ضلالت وگمراہی ہے اور ایک اعتبار سے قرآن مجید کے انکار کے مترادف ہے ۔ لہٰذا مسلمان اہل علم کوچاہیے کہ اس سازش کوبے نقاب کرنے کے لئے میدان عمل میں آئیں ۔اوراس مکروہ سازش کا سیاہ پردہ چاک کیاجائے۔اسلام تواتناہی ابھرے گا جتناکہ دبانے کی ناروا کوشش کی جائے گی ﴿ یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوا