کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 127
[تفسیر القرطبی:۱/۴۶] ’’اس دور میں ان معروف ائمہ قراءات سے صحیح ثابت قراءات پر مسلمانوں کا اجماع ہو چکا ہے۔ان ائمہ کرام نے علم قراءت پر متعدد کتب تصنیف کی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے حفاظت قرآن کا وعدہ پورا ہو گیا ہے۔قاضی ابو بکر ابن الطیب اور امام طبری جیسے ائمہ متقدمین اور فضلاء محققین کا اس قول پر اتفاق ہے۔‘‘ ٭ ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ومضت الأعصار والامصار علی قراءۃ السبعۃ وبھا یصلی لأنھا تثبت بالإجماع‘‘ [المحرر الوجیز:۱/۴۹] ’’قراءات سبعہ پر متعدد ادوار گزر چکے ہیں اور یہ نمازوں میں پڑھی جا رہی ہیں ،کیونکہ یہ اجماع امت سے ثابت ہیں ۔‘‘ ٭ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’سبب تنوع القراءات فیما احتملہ خط المصحف ہو تجویز الشارع وتسویغہ ذلک لہم إذ مرجع ذلک إلی السنۃ والاتباع لا إلی الرأی والابتداع‘‘ [مجموع فتاوی:۱۳/۴۰۲] ’’خط مصحف میں مختلف قراءات کا احتمال شارع کی طرف سے ہے،کیونکہ اس کا مرجع سنت واتباع ہے۔اجتہاد ورائے نہیں ۔‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف، المراء فی القرآن کفر....)) [مسنداحمد:۳۰۰، صحیح ابن حبان:۷۳، تفسیرابن کثیر:۲/۱۰۲، فضائل القرآن:۶۳] ’’قرآن مجید سبعہ احرف پر نازل کیاگیا ہے،قرآن مجید کے بارے جھگڑنا کفر ہے۔‘‘ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ ’’أن من کفر بحرف منہ فقد کفر بہٖ کلہ‘‘ [تفسیر الطبری:۱/۵۴، الابحاث فی القراءات :ص۱۸، نکت الانتصار للباقلانی:ص۳۶۴] ’’جس شخص نے قرآن مجید کے ایک حرف کا انکار کیا، یقیناً اس نے پورے قرآن کا انکار کیا۔‘‘ ٭ امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’واتفقوا أن کل ما فی القرآن حق وأن من زاد فیہ حرفاً ما غیر القراءات المرویۃ المحفوظۃ المنقولۃ نقل الکافۃ أو نقص منہ حرفاً أو غیر منہ حرفاً مکان حرف و قد قامت علیہ الحجۃ أنہ من القرآن فتمادی متعمدا لکل ذلک عالماً بأنہ بخلاف ما فعل، فانہ کافر‘‘ [مراتب الاجماع:ص۱۷۴] ’’اورتمام اہل علم کا اتفاق ہے اس بات پر کہ جو کچھ قرآن میں ہے وہ حق ہے اور اس بات پر کہ ان قراءاتِ کے علاوہ جو(مروی) محفوظ(ہیں اور)تواتر کے ساتھ منقول ہیں ،جو کوئی اس(قرآن) میں (اپنی طرف سے)کسی ایک حرف کا بھی اضافہ کرے یا اس میں سے کسی حرف کی کمی کرے یا کسی ایسے حرف کو دوسرے حرف سے تبدیل کر دے جس کا قرآن سے ہونا دلیل(قطعی ضروری) سے ثابت ہو اور وہ تعنت کی بنا پر عمداً ان(زیادتی، کمی یا تبدیلی) میں سے کسی ایک کا ارتکاب کرے یہ جانتے ہوئے کہ حقیقت اس کے خلاف ہے جو کچھ یہ(کمی،زیادتی یا تبدیلی) کر رہا ہے تو وہ کافر ہے۔‘‘ علامہ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’أن الإجماع منعقد علی أن من زاد حرکۃ أو حرفاً فی القرآن أو نقص من تلقاء نفسہ مصرا علی ذلک یکفر‘‘ [منجد المقرئین:ص۹۷،۲۴۴] ’’اور اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ جو کوئی اپنی طرف سے قرآن کریم میں کسی حرکت یا حرف کا اضافہ کرے یا کمی کرے(تنبیہ کیے جانے اور تواتر تسلیم ہو جانے کے باوجود) اس(کمی یا زیادتی) پر مصر ہو تووہ کافر ہے۔‘‘