کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 120
لی اور دنیا وآخرت میں ہلاک ہوئے۔
وہ قراء تیں جن کا تم نے ذکر کیا وہ محض صحابی یا تابعی پر موقوف ہیں ( ان کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچتا) لہذا لا محالہ وہ صحابی یا تابعی کا وہم ہے اور انبیاء علیم السلام کے بعد وہم سے کوئی خالی نہیں ۔
مصحف ابن مسعود رضی اللہ عنہ :
تمہارا یہ کہنا کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مصحف تمہارے مصحف کے خلاف ہے یہ کذب وباطل اور تہمت ہے۔ مصحف عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ میں بلاشک محض انہی کی قراءت ہے مگر ان کی قراءت وہی ہے جو امام عاصم کی قراءت ہے کہ دنیائے مشرق ومغرب میں تمام اہل اسلام کے یہاں مشہور ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ ہم اس کوبھی پڑھتے ہیں اور دوسری قراءات کو بھی، کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ ساری قراءات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہیں ۔ لہٰذا اس کے متعلق بھی ان کا اعتراض باطل ہوگیا ۔ والحمد للّٰہ رب العالمین
مصحف عثمانی:
تمہارا یہ کہنا کہ ’’علماء کی ایک جماعت نے جن سے ہم اپنا دین اخذ کرتے ہیں ، بیان کیا ہے کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے جب وہ مصحف لکھا جس پر انہوں نے لوگوں کو جمع کر لیا تو اس میں نازل شدہ حروف میں سے چھ حروف نکال ڈالے اور صرف ایک حرف رہنے دیا تو یہ انہیں اغلاط میں سے ہے جن کا تذکرہ ہو چکا ہے ۔یہ وہ گمان ہے جس کے قائل نے خطا کی ہے، واقعہ ایسا نہیں ہے جیسا اس نے کہا بلکہ یہ سب مثل آفتاب روشن کے برہان سے باطل ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسے وقت ہوئے ہیں کہ تمام جزیرۃ العرب مسلمانوں ،قرآنوں ، مسجدوں اور قاریوں سے بھرا ہوا تھا ۔قاری، بچوں عورتوں اور ہر موجود اور دور سے آنے والے کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ تمام یمن جو ان کے زمانے میں متعدد شہروں اوربستیوں پر مشتمل تھا،اسی طرح بحرین اور عمان جن کی وسیع آبادی میں متعدد شہر اور دیہات تھے،اسی طرح تمام مکہ، طائف ،مدینہ اور شام، اسی طرح جزیرۃ، اسی طرح تمام مصر اور اسی طرح کوفہ وبصرہ کہ ان تمام آبادیوں میں اس قدر قرآن وقاریان قرآن تھے کہ ان کاشمار سوائے اللہ کے کوئی نہیں کر سکتا ، جیسا کہ یہ لوگ بیان کرتے ہیں اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کا قصد بھی کرتے تو ہر گز اس پر قادر نہ ہوتے۔
یہ کہنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک قرآن پر جمع کر دیا تو یہ بھی باطل ہے۔ مذکورہ بالاوجوہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس پر بھی قادر نہیں ہو سکتے تھے اور نہ کبھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس طرف گئے کہ لوگوں کو اپنے لکھے ہوئے مصحف پر جمع کریں انہیں محض یہ اندیشہ ہوا کہ فاسق آ کے دین میں مکر کی کوشش کرے یا اہل خیر ہی میں سے کوئی وہم کرے اور قرآ ن کا کچھ حصہ بدل دے۔ نتیجے میں ایسا اختلاف ہو گا جو گمراہی تک پہنچا دے گا۔ انہوں نے متفق ہو کر چند قرآن لکھے اور ہر سمت ایک قر آن بھیج دیا کہ اگر کوئی وہم کرنے والا وہم کرے یا کوئی بدلنے والا بدل دے تو اس متفق علیہ قرآن کی طرف ر جوع کر لیا جائے لہذا حق ثابت و واضح ہو گیا اور کید و وہم باطل ہو گیا۔
یہ کہنا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف مٹا دیئے تو جو یہ کہتا ہے ، وہ جھوٹا ہے۔ اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کرتے یا ایسا کرنے کا ارادہ کرتے تو اسلام سے خارج ہو جاتے اور ایک ساعت بھی نہ ٹھہرتے ۔ یہ ساتوں حروف ہمارے