کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 12
مشرف یاب ہوا۔ مصر کی حکومت اگرچہ سیکولر ہے، لیکن وہاں قراءت و تلاوت کو کلچر کے بلند ترین مقام پررکھا جاتا ہے۔ قاری عبدالباسط مصری رحمہ اللہ شہرہ آفاق قاری ہیں ۔ اس طرح مصر کے قاری صدیق المنشاوی اور قاری عنتر سعید; نے فن قراءت میں قابل رشک مقام حاصل کیا۔ گذشتہ چند برسوں میں ایرانی حکومت نے فن قراءت کو فروغ دینے میں بہت دلچسپی لی ہے۔ ان کی سرکاری تقریبات میں قرآن مجید کی قراءت خصوصیت سے کی جاتی ہے۔ قرآن مجید کی محافل میں روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای، صدراحمدی نژاد اور دیگر رؤسائے حکومت بنفس نفیس شریک ہوتے ہیں ۔ ایران غالباً واحد ملک ہے جس کے قراء سرکاری خرچ پر ہر سال ماہ رمضان میں مختلف مسلمان ملکوں کادورہ کرتے ہیں ۔ گذشتہ برسوں میں یہ وفد پاکستان کا تواتر سے دورہ کرتارہاہے۔ ۶/اکتوبر ۲۰۰۷ء بمطابق ۲۴رمضان المبارک کو راقم الحروف نے ’شب نورِ قرآن‘ کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں قاری احمد میاں تھانویd صاحب کے علاوہ لاہور کے معروف قراء بھی شریک ہوئے، اس تقریب میں خانۂ فرہنگ ایران کے تعاون سے ایرانی قراء کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ افسوس کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قرآن مجید کے صوتی جمال اور فن قراءت کے فروغ و اشاعت کے لیے کوئی قابل ذکر سرگرمی نظر نہیں آتی۔ عوام کے فنڈ سے قائم ہونے والی آرٹس کونسلوں میں موسیقی کی فحش اور بے ہودہ تقاریب تو منعقد کرائی جاتی ہیں ، مگر اس کے دین بیزار منتظم اسلامی کلچر کی اہم ترین مظہر ’فن قراء ت‘ کو آگے بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ حکومتی سرپرستی کے اس فقدان کی وجہ سے عوام قرآن مجید کے صوتی جمال سے کماحقہ محظوظ نہیں ہوپاتے۔ مذہب اور ثقافت کے درمیان باہمی رشتے پر یہاں تفصیلی ذکر کی گنجائش نہیں ہے، لیکن پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اس مضمون کا خاتمہ اس اہم فکری تصور پر کیاجائے۔ ہمارے خیال میں کلچر معاشرے کے مجموعی طرزِ عمل کانام بھی ہے اور اس مجموعی طرز عمل کی تشکیل میں مرکزی کردار اس کے داخلی عناصر یعنی عقائد، فکری اَساس اور مذہبی سوچ اداکرتے ہیں ، خارجی عناصر کی شکل و صورت بنانے میں بھی باطنی عناصر کا کردار اہم ہے۔ دین ایک برتر تصور ہے جو ثقافت کی حدود اور اس کے دائروں کا تعین کرتا ہے۔ اس اعتبار سے مذہب کامنصب ثقافت گری بھی ہے۔اسلام محض ثقافت نہیں بلکہ ’دینی ثقافت‘ کا تصور پیش کرتاہے جو دین و دنیا کے تمام امو رکا احاطہ کرتی ہے۔ مذہب کو ثقافت کے مقابلے میں برتر مقام دینے کی بنیادی وجہ اس کا احکام الٰہی پرمبنی ہونا ہے۔ اسلام چونکہ اَبدی دین ہے،اس میں آنے والے انسانوں کے لیے بھی ضابطۂ حیات موجود ہے۔ اس لیے اسلام نے اپنا الگ ثقافتی نصب العین بھی پیش کیا۔آفاقی دین کی حیثیت سے اسلام نے تمام دنیا کے انسانوں کے لیے نظام معاشرت و ثقافت تجویز فرمایا۔ اگر ہم اسلام کو انسانی زندگی کے لیے مکمل نظام حیات سمجھتے ہیں ، اگر ہم اسلام کو ثقافت کے باطنی و خارجی عناصر کا محوری نکتہ سمجھتے ہیں تو اس کامنطقی نتیجہ اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اپنے کلچر کے تمام مظاہر کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالیں ۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی قومی زندگی میں اسلام اور کلچر کے درمیان جہاں کہیں