کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 118
٭٭٭ سوال: کیا قراءاتِ شاذہ کے ساتھ تلاوت کرنا جائز ہے؟ اور کیا نماز میں قراءات شاذہ کی تلاوت مکروہ ہے؟ جواب: قراءات متواترہ کے سوا تلاوت کرنا ناجائز ہے۔اور وہ قراءات جو تواتر کے ساتھ ثابت نہیں ہیں ، نماز وغیر نماز دونوں حالتوں میں ان کی تلاوت کرنا مکر وہ ہے، اور ہر صاحب استطاعت شخص پر واجب ہے کہ وہ قیام واجب کیلئے اٹھ کھڑا ہو۔[فتاویٰ ومسائل لابن الصلاح:۱/۲۳۱] ٭٭٭ جواب: اسے منع کرنا واجب ہے، اگر اسے اس قراءت کے شاذہ ہونے کاعلم بھی ہو تو وہ گناہ گار ہے اور تعزیر کا مستحق ہے۔ [فتاوی و مسائل لابن الصلاح:۱/۲۳۲] ٭٭٭ سوال: اگر کوئی شخص روکنے کے باوجود قراءات شاذہ کی تلاوت کرنے سے باز نہیں آتا تو اس کی کیا سزا ہے؟ جواب: اسے قید کر دیا جائے اور اس کی توہین کی جائے،صاحب قدرت شخص پر واجب ہے کہ وہ اسے دوبارہ قراءات شاذہ کے ساتھ تلاوت کرنے کی اجازت نہ دے۔ [فتاوی ومسائل لابن الصلاح:۱/۲۳۲] ٭٭٭ امام ابن حزم الاندلسی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’الملل والنحل‘میں جمع قرآن ، سبعہ احرف اور قراءات کے حوالے سے عیسائیوں کے اعتراضات کے جواب میں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں : پہلی شق: ان لوگوں نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ تم لوگ اپنی کتاب(قرآن ) کی نقل کو کیسے صحیح کہہ سکتے ہو؟ حالانکہ اس کی قراءات میں باہم شدید اختلاف ہے ۔ تم میں سے بعض لوگ بہت سے حروف بڑھادیتے ہیں اور بعض لوگ انہیں حذف کر دیتے ہیں ، یہ تو اختلاف کاایک باب ہوا۔ دوسری شق: تم لوگ ایسی اسانید سے جو تمہارے یہاں انتہائی صحت کوپہنچی ہوئی ہیں روایت کرتے ہو کہ تمہار ے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اَصحاب کے چند گروہوں نے ،اوران کے ایسے تابعین نے ،جن کی تم تعظیم کرتے ہو اور اپنا دین ان سے اَخذ کرتے ہو، قرآن کو ایسے الفاظ زائدہ و مبدلہ میں پڑھا ہے،کہ تم لوگ ان الفاظ میں پڑھنے کوجائز نہیں سمجھتے جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مصحف(قرآن مجید) تمہارے مصحف کے خلاف تھا۔ تیسری شق: نیز تمہارے علماء کے چند گروہ جن کی تم تعظیم کرتے ہو اور ان سے اپنا دین اخذ کرتے ہو کہتے ہیں کہ سیدنا عثمان