کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 112
اس مصحف میں قراءات سبعہ یا مکمل قراءات عشرہ موجود تھیں ؟ کیا وہ أحرف سبعہ میں ایک حرف تھا جس پر قرآن مجید نازل کیا گیا ہے یا سبعہ احر ف کا مجموعہ تھا ؟ اس میں دومشہور قول ہیں :
۱۔ وہ مصحف سبعہ احرف میں سے ایک حر ف پر مشتمل تھا۔ یہ سلف آئمہ اور اہل علم کا قول ہے۔
۲۔ وہ مصحف تمام سبعہ احرف پر مشتمل تھا۔ یہ بعض اہل کلام اور قراء کرام وغیرہ کا قول ہے۔
اورتمام اہل علم اس امر پر متفق ہیں کہ احرف سبعہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں کہ ان کے معنی میں تضاد اور تناقض ہو بلکہ وہ ایک دوسرے کے معنی کی تصدیق وتائید کرتے ہیں ۔ جس طرح آیات قرآنیہ ایک دوسرے کی تصدیق کر تی ہیں ۔مصحف کے احتمالی خط میں قراءات کے تنوع کا سبب شارع کی طرف سے اِجازت ہے،کیونکہ قراءات کا مصدر سنت اور اتباع ہے،رائے اور بدعت نہیں ۔
اگر کہا جائے کہ یہ قراءات ہی احرف سبعہ ہیں تو بطریق اولی واضح ہیں ۔ گویا اللہ تعالیٰ نے ان کوسبعہ احرف میں پڑھنے کی اجازت دے دی جوسب کے سب شافی وکافی ہیں ۔ باوجودیکہ رسم میں احرف کاتنوع تھا۔ اب جبکہ رسم میں حروف کا اتفاق ہے تو اسے بالاولی جائز ہونا چاہیے ۔ یعنی ایک رسم کی وجہ سے یاء اورتاء کی قراءت بالاولی صحیح ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عہد صحابہ کرام میں قرآن مجید کو اعراب اور نقطوں کے بغیر لکھا گیا تھا تاکہ رسم کی صورت دونوں قراءات کا احتمال رکھے ۔ جیسے یاء اور تاء ،ضمہ اور فتحہ ۔ اور وہ ان دونوں قراءات کو تلفظ سے ضبط کرتے تھے۔ اور ایک ہی رسم الخط دونوں قراءات پر دلالت کرتا تھا۔
صحابہ کرام7نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کے الفاظ اور معانی دونوں اکٹھے حاصل کئے۔ جیسا کہ ابو عبد الرحمن السلمی رحمہ اللہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:
((خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ)) [صحیح البخاري:۵۰۲۷]
’’تم میں سے بہتر ین شخص وہ ہے جو خود قرآن مجید سیکھتا ہے اور اسے آگے سکھاتا ہے۔‘‘
امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اورسیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید سیکھتے تھے اور اس وقت تک اگلی آیات نہ پڑھتے تھے جب تک ان آیات میں موجود علم وعمل سے آگاہ نہ ہو جاتے تھے وہ فرماتے ہیں کہ :
ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کا علم اور عمل اکھٹے سیکھے ہیں ۔لہذا قرآ ن مجید کے حروف اور معانی کی اکھٹی تعلیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول((خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ)) کے معنی میں داخل ہے بلکہ حروف کی تعلیم حاصل کرکے معانی سیکھنا ہی مقصود ہے۔ اور اسی سے ایمان میں زیادتی ہوتی ہے ۔
جیسا کہ جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ؟وغیرہ فرماتے ہیں :
’’ہم نے پہلے ایمان سیکھا پھر قرآن سیکھا جس سے ہمارا ایمان زیادہ ہو گیا،او رتم پہلے قرآن سیکھتے ہو پھر ایمان سیکھتے ہو۔
صحیحین میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو حدیثیں بیان کیں ، جن میں سے ایک کو میں نے دیکھ لیا ہے جبکہ دوسری کے انتظار میں ہوں ۔ آپ نے فرمایا بے شک امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ میں نازل ہوئی ہے، پھر قرآن نازل ہو ا ہے۔‘‘ [صحیح بخاری :۶۴۹۷، صحیح مسلم:۱۴۳]
جس طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید نازل فرمایا تھا اس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حروف اورمعانی کو ہم تک پہنچا دیا ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: