کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 111
نیز سائل کا یہ سوال کہ مصحف کے احتمالی خط میں قراء کرام کے اختلاف کا کیاسبب ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قراءات کا مرجع و مصدر نقل اور لغت عربیہ ہے،کسی کے لئے مجرد اپنی رائے سے قراءت کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ قراءت سنت متبعہ ہے۔ جب انہوں (صحابہ )نے مصحف امام میں مکتوب قرآن مجید پر اتفاق کر لیا اوربعض نے یاء کے ساتھ اور بعض نے تاء کے ساتھ پڑھا توان دونوں قراءات میں سے کوئی ایک قراءت بھی مصحف سے خارج نہیں ہے۔(کیونکہ خط مصحف دونوں قراءات کا احتمال رکھتا تھا) بعض مقامات پر تمام قراء کرام’یاء‘ یا’تاء‘ پڑھنے پر متفق ہیں جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔﴿ وَمَا اللّٰہ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ [البقرۃ:۴۷] اس جگہ تمام قراء کرام بالتاء ہی پڑھتے ہیں ۔ جبکہ دیگر دو مقامات پر قراء کرام کے درمیان اختلاف ہے اور ہم پہلے ہی یہ بتا چکے ہیں کہ دو قراءات دو آیتوں کی مانند ہیں ۔ جتنی زیادہ قراءات ہوں گی اتنی ہی آیات شمار ہو ں گی ، لیکن جب دونوں قراء توں کا خط ایک ہی ہوجو دونوں کاہی احتمال رکھتا ہو تو رسم میں آسانی ہوجاتی ہے۔ نقل قرآن میں اصل اعتماد مصاحف کی بجائے حفظ القلوب پر ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے رب نے مجھے حکم دیا کہ کھڑا ہو جا اورقریش کو ڈرا! میں نے کہا: اے میرے رب! وہ تو میرا سر کچل دیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں تجھے بھی آزمانے والا ہوں اور تیرے ساتھ(دیگر لوگوں ) کو بھی آزمانے والا ہوں اورمیں تیرے اوپر ایک ایسی کتاب نازل کرنے والا ہوں جسے پانی نہیں دھو سکے گا ۔آپ اسے نیند اور بیداری دونوں حالتوں میں پڑھیں گے۔ آپ ایک لشکر روانہ کریں میں اس سے دوگنا بڑا لشکر روانہ کروں گا۔ اوراپنے مطیع لوگوں کو ساتھ لے کر نافرمانوں سے لڑائی کر اور تو خرچ کر میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔[صحیح مسلم:۲۸۶۵] اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب(قرآن مجید) اپنی حفاظت میں صحیفوں کی محتاج نہیں ہے، جن کو پانی سے دھویا جاسکتا ہو،بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اسے پڑھتے تھے۔ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’ أناجیلہم فی صدورہم‘‘ [مجمع الزوائد:۸/۲۷۴] ’’ان کی اناجیل یعنی قرآن ان کے سینوں میں ہے۔‘‘ بخلاف اہل کتاب کے،کیونکہ وہ اپنی کتاب کی حفاظت صرف کتابوں میں کرتے تھے، اسے زبانی یاد نہیں کرتے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں صحابہ کرام کی ایک جماعت نے قرآن مجید کو جمع کر لیا تھا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ معروف قراء کرام جیسے امام نافع رحمہ اللہ ، اورامام عاصم رحمہ اللہ وغیرہ کی طرف منسوب قراءات ،سبعہ احرف نہیں ہیں ، جن پر قرآن مجید نازل کیا گیا تھا،اور اس پر تمام سلف وخلف اہل علم کا اتفاق ہے۔ اسی طرح موجودہ قراءات سبعہ بھی احرف سبعہ میں سے مکمل ایک حرف نہیں ہیں ، جن پر قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔ بلکہ دیگر آئمہ قراءات سے ثابت قراءات بھی [جیسے امام اعمش، امام یعقوب، امام خلف، امام ابو جعفر یزیدبن قعقاع اور امام شیبہ بن نصاح رحمہم اللہ کی قراءت ہیں ]ان قراءات سبعہ کے مقام ومرتبہ میں ہیں ۔ جس طرح یہ قراءات سبعہ ثابت ہیں ایسے ہی وہ قراءات بھی ثابت ہیں ۔ آئمہ فقہاء اور قراء کا اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ متاخرین نے مصحف عثمانی کے بارے میں اختلاف کیا۔ جس پر صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کا اجماع ہے،کیا