کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 11
’’نہیں ۔ تم کچھ نہیں جانتے منٹو! یہ نور ہے ، نور جہاں ہے، سرور جہاں ہے، خدا کی قسم ایسی آواز پائی ہے کہ بہشت میں خوش الحان سے خوش الحان حور سنے تو اسے سیندور کھلانے کے لیے زمین پر اتر آئے۔‘‘
ایک اور فیچر نگار نور جہاں کی موت پر اپنے جذبات کااظہار یوں کرتا ہے:
’’اللہ رکھی سے نور جہاں بن کر دنیا بھر میں روشنی پھیلانے والے نورجہاں جیسے انسان دنیامیں صدیوں میں پیداہوتے ہیں ۔ اب اس دنیاکوصدیوں تک کسی اور نورجہاں کا انتظار کرناہوگا۔‘‘ [روزنامہ جنگ]
ایک لہوولعب، فسق و فجور، گانے بجانے اور جنسی آوارگی کا شکار عورت کو ’نور‘ صرف وہی ادیب لکھ سکتے ہیں جن کے قلوب الحاد و زندیقیت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ یہ وہ بدبخت طائفہ ادباء ہے جس کو قرآن کانور تو کبھی نظر نہیں آیا، البتہ غناء اورموسیقی کے فتور کو ہی ’نور‘ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہے۔
اللہ کی کتاب قرآن مجید کے صوتی حسن و جمال کاموازنہ سیکولر موسیقی سے کرنا ہمارے نزدیک ناپسندیدہ امر ہے۔ مگر یہاں موضوع کی مناسبت سے فن قراءت اور فن موسیقی کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے راقم اپنے مضمون ’نور جہاں ، فتور جہاں ‘ کے اس حصے کو یہاں پر نقل کرنا فائدے سے خالی نہیں سمجھتا۔
سعادت حسن منٹو ’نورجہاں ‘ کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے:
’’مجھے اس کی شکل و صورت میں ایسی کوئی خاص چیز نظر نہیں آئی۔ایک فقط اس کی آواز، مرکیاں اتنی واضح، کھرچ اتنا ہموار پنچم اتنانوکیلا۔ میں نے سوچا یہ لڑکی چاہے تو گھنٹوں ایک سُر پرکھڑی رہ سکتی ہے، اسی طرح جس طرح بازی گر تنے ہوئے رسے پر بغیرکسی لغزش کے کھڑے رہتے ہیں ۔‘‘
یہ غالباً خوبصورت ترین جملے ہیں جو اُردو زبان میں لکھنے والے کسی ادیب نے کسی بھی مغنیہ کی تعریف میں ادا کئے ہیں ۔ مگر اے کاش فلمی اسٹوڈیو میں عمر گنوا دینے والا جمال پرست، فحش نگار منٹو اگر کم سن قاری جواد فروغی کو کبھی سن لیتا تو اُسے قلم پھینکنا پڑتا، کیونکہ اس کے خداداد صوتی جمال کو لفظوں کے پیکر عطاکرناممکن نہیں ہے۔
’’یہ جواد فروغی کون ہے؟ جواد سرزمین ایران میں جنم لینے والا وہ نوجوان تھا جس نے بارہ سال کی عمر میں قرآن مجید کی قراءت کے ذریعے کروڑوں سننے والوں کو تڑپاکر رکھ دیا۔ وہ جب اپنے مکان کی چھت پر چڑھ کر تلاوت قرآن پاک کرتا تو اس کے گھر کے سامنے سننے والوں کے رش کی وجہ سے ٹریفک جام ہوجاتی۔ وہ جب ایک لمبے سانس میں بے حد وجدانی آواز میں کئی آیات کی تلاوت کرنے کے بعد وقفہ کرتاتو سننے والے اپنے آپ میں نہ رہتے اور کافی دیر تک فضا ’’واہ واہ ، سبحان اللہ‘‘ کے وجدانی نعروں سے گونجتی رہتی۔ قلبی قساوت کے شکار سامعین کی آنکھیں بھی وفورِ جذبات سے چھم چھم ہوجاتیں ۔ ایسے سریلے لحن، ملکوتی گونج سن کر گمان ہوتا کہ اس نوجوان کے گلے میں نور برس رہا ہے۔ قرآن مجید ایک نور ہے جواد فروغی کی سحر انگیز آواز میں اس کی قراءت ’نور علی نور‘ محسوس ہوتی تھی۔‘‘ [محدث:جنوری۲۰۰۱ء]
عالم اسلام میں اس وقت سعودی عرب، ایران اور مصر میں فن قراءت یعنی قرآن مجید کے صوتی جمال کے فروغ کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔سعودی عرب میں فن قراءت پر پی ایچ ڈی کرنے والے افراد سینکڑوں مل جائیں گے۔ قاری ایوب، قاری سعود الشریم، قاری عبدالرحمن السدیس رحمہم اللہ کی آواز میں پورے قرآن مجید کی تلاوت کاسیٹ مل جاتا ہے۔ وہاں قراء حضرات اعلیٰ مناصب پر فائز ہیں ، بعض کامرتبہ وزراء کے برابر ہے۔ آج سے دو برس قبل قاری عبدالرحمن السدیس حفظہ اللہ حکومت پاکستان کی خصوصی دعوت پر پاکستان تشریف لائے تو انہیں ریاست کے سربراہ کا پروٹوکول دیا گیا۔ حافظ عبدالرحمن مدنی حفظہ اللہ کے توسط سے راقم الحروف بھی اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں ان کی ملاقات سے