کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 10
’’قرآن ایک عظیم کلام ہے اسکے اعجاز و حکمت کااِحاطہ ممکن نہیں ہے۔ مختلف اَوصاف اور خوبیوں کے علاوہ قرآن کا ایک خاص وصف یہ ہے کہ اسمیں ایک عجیب قسم کا صوتی حسن و جمال اور آہنگ پایا جاتاہے۔ یہ حسن و جمال قرآن کا اپنا اعجاز ہے۔ قرآن کاایک ایک لفظ دلکش ہے۔ اسکی ہر ایک آیت سے ایک نغمہ پھوٹتا نظر آتا ہے جس سے ہمارے اِحساسات و جذبات ہی مترنم نہیں ہوتے بلکہ اسکے سبب کائنات کی پوری فضا ترنم سے بھری ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ قرآن اوزان و قوافی اور شاعری کی عام قیود سے آزاد اور ہر طرح کے تصنع و تکلف سے پاک ہے۔ اس کے باوجود اسکی ہر آیت میں کچھ ایسا داخلی ترنم پایاجاتا ہے جس کے مقابلے میں سارے ہی ارضی نغمات پھیکے اور بے کیف معلوم ہوتے ہیں ۔‘‘
قرآن مجید کے صوتی جمال سے مسحور مسلمان تو کروڑوں میں ہوں گے، مگر بعض غیر مسلم مستشرقین اور دانشوروں نے بھی بے حد کھلے دل سے اس کے جمال کی تعریف کی ہے۔ اے ۔جے آربری(A.J.Arberry)غالباً بیسویں صدی کے سب سے بڑے مستشرق ہیں ۔ انہوں نے قرآن مجید پربہت وقیع کام کیا ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
’’ میں جب بھی قرآن کی قراءت سنتا ہوں توایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویانغمہ سن رہا ہوں ۔ اس شیریں نغمہ کی تہہ میں مسلسل ایک دھن سنائی دیتی ہے، جو میرے دل کی دھڑکن کی طرح ہوتی ہے۔‘‘
ایک ہندو مصنف شیو کے کمار نے اپنے ایک مقالے میں کھلے دل سے قرآن کی موسیقیت اور نغمگی کا اعتراف کیاہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ رحمہ اللہ عالم اسلام کے عظیم محقق تھے، طویل عرصہ فرانس میں رہے،حال ہی میں ان کاانتقال ہوا ہے۔ وہ اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں :
’’قرآن نثر میں ہے لیکن دلکشی اس میں شعر کی ہے۔ اس کی عبارت میں کہیں ایک حرف کی بھی کمی یا بیشی ہوجائے تو اس کی روانی میں اس طرح کا نقص پیداہوجائے گا جیسے کسی مصرعہ میں سکتہ پڑ جاتا ہے۔‘‘ [ قرآن کریم کا صوتی اعجاز]
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
﴿إنَّ السَّمْعَ وَالبَصَرَوَ الفُؤَادَ کُلُّ اولٰئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُولا﴾ [الاسراء:۳۶]
یعنی ’’کان، آنکھ، دل، ہر ایک سے متعلق باز پرس ہوگی۔‘‘
اس آیتِ مبارکہ میں کانوں سے سنی جانے والی ہر بات کی جواب دہی اور احتساب کا تصور ایک مسلمان کا سکون برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔
رقص و نغمہ، غنا و موسیقی، گانا بجانا اور آلاتِ موسیقی کی حرمت کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو جاننے کے بعد ایک مومن کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ٹی وی پر یا کسی محفل موسیقی میں کوئی گاناسنے اور فسق و معصیت کے اِحساس کے زیربار نہ ہو۔ آج کل بسوں میں موسیقی چلانے کا رواج عام ہے، اہل ایمان ایسے اسفار میں شدید ذہنی کرب اور روحانی تکلیف میں مبتلارہتے ہیں ۔ تلاوت قرآن اور اس کے صوتی جمال کے احساس کو اگر معاشرے میں عام کردیا جائے تو سیکولر موسیقی کی قباحتوں سے بچتے ہوئے ذوق سلیم کی تسکین کاسامان کیاجاسکتا ہے۔
ہمارے ہاں حالیہ برسوں میں ایک اور بیہودگی فتنہ کی صورت اختیارکرتی جارہی ہے۔ ہمارے سیکولر دانشور اور اہل قلم اخبارات اور ٹیلی ویژن پر مغنی اور مغنیات کے متعلق بے حد مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں جس سے معاشرے میں گانے والوں اور کنجر کلچر کے خلاف نفرت کے جذبات کم ہورہے ہیں ۔
قلمی اوباشی میں شہرت رکھنے والے افسانہ نویس منٹو نے اپنے خاکے’نور جہاں ، سرور جہاں ‘ میں ان الفاظ میں نورجہاں کو ’خراج تحسین‘ بخشا: