کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 90
روزے ہیں۔ ‘‘[1] نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں۔ دریافت فرمایا: یہ کیا ہے؟ وہ کہنے لگے: یہ ایک صالح دن ہے۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنواسرائیل کو اُن کے دشمن(فرعون)سے نجات دلائی تھی۔ چنانچہ موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس دن کا روزہ(شکر کے طور پر)رکھا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوْسٰی مِنْکُمْ۔))… ’’ موسیٰ علیہ السلام کی نسبت میں تم سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ ‘‘(کہ اُن سے محبت کروں اور جس عمل کو انہوں نے اختیار کیا اُسے میں بھی اختیار کروں الا یہ کہ بطورِ شریعت اللہ عزوجل نے جسے منسوخ کردیا ہو۔)اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کا روزہ رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا بھی حکم دیا۔ [2] سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کی مخالفت میں ارشاد فرمایا:((فَإِذَا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ… اِنْ
[1] یہ ایک حدیث کا جزء ہے۔ دیکھیے: صحیح مسلم؍ کتاب الصیام، باب فضل صوم المحرّم، حدیث: ۱۱۶۳۔ [2] اس حدیث کے راوی جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ دیکھیے: صحیح البخاری؍ کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء، حدیث: ۲۰۰۴۔ صحیح مسلم؍ کتاب الصیام، باب صوم عاشوراء، حدیث: ۱۱۳۰۔