کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 76
نبی معطم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر نازل ہوتا رہا۔ [1] اس نزول کی ابتداء بھی لیلۃ القدر میں ہی ہوئی تھی، جیسا کہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ﴾(البقرۃ:۱۸۵) ’’ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اترا۔ راہ بتلاتا ہے لوگوں کو اور اس میں کھلی کھلی دلیلیں ہیں ہدایت کی اور حق کو ناحق سے پہچاننے کی۔‘‘ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کا ایک ارشاد یوں بھی ہے:
[1] قرآنِ کریم کا تین بار دھیرے دھیرے اُترنے کا قول سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف منسوب ہے۔ جیسا کہ اس کا ذکر حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر (ص:۱۸۵۸) میں لکھا ہے! دو مرتبہ یکبارگی یعنی پہلی دفعہ لوحِ محفوظ کی طرف۔ دوسری دفعہ لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا کے بیت العزت کی طرف۔ اور تیسری دفعہ تئیس سالہ دورِ نبوت میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کرکے۔ اور یہ بات بھی واضح ہے کہ یہاں اس قول کے جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما پر موقوف کا مطلوب حدیث مرفوع ہے۔ یہ مرفوع کا حکم اس بنا پر ہے کہ یہ قول صحابہ کرام کے علام میں سے ایک جلیل القدر عالم صحابی کا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی ہے کہ اس مروی قول کے بارے میں رائے اور اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے۔