کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 57
علیہم اجمعین میں سے ایک شخص نے اس بات کا ارادہ کیا کہ وہ اپنے دونوں پیروں کے ساتھ دو دھاگے باندھ لیں۔ ایک سفید دھاگا اور دوسرا سیاہ۔ چنانچہ وہ صاحب اس طرح کے دونوں دھاگے باندھے کھاتے پیتے رہے یہاں تک کہ ان کے لیے ان دونوں کا منظر واضح ہو گیا۔ اور یہ معاملہ اس طرح ہی رہا۔(یعنی صحابہ کرام اپنے اجتہاد سے آیت کریمہ میں وارد… الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ … کا معنی سمجھتے رہے۔)یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ’’مِنَ الْفَجْرِ‘‘ کے کلمات نازل فرما کر بات کو سمجھا دیا۔ تو اس سے واضح ہو گیا کہ دو دھاگوں(دھاریوں)سے مراد صبح کی(سفید)دھاری اور طلوع فجر کے وقت رات کی دھاری ہے کہ جب یہ دونوں دھاریاں اُفق میں پھیل جائیں۔ جیسا کہ پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یوں گزر چکا ہے کہ: اس سے مراد رات کی سیاہی اور دن کی سفیدی ہے۔ ‘‘ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبح صادق کی اپنی مبارک انگلیوں کے ساتھ شکل بنا کے صورت بھی بتانا گزر چکا ہے۔ اور احادیث میں اہل مدینہ کے مسلمانوں کے لیے جناب عبداللہ بن اُم مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان سننے کے بعد کھانے پینے سے رُک جانے کا ذکر بھی موجود ہے کہ وہ اپنی اذان کے ذریعے صبح صادق کا اعلان کرنے والا ہوتے ہیں۔ نہ کہ جناب بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کی اذان کے ساتھ۔ کیونکہ وہ رات(یعنی تہجد)کی اذان