کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 52
کریم نے اپنا یہ فرمان نازل کر کے رخصت اُتار دی۔ فرمایا: ﴿فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ﴾(البقرہ:۱۸۷) (ترجمہ پیچھے گزر چکا ہے۔)[1] اور پھر انہی اُمور کے ساتھ روزوں کے معاملہ نہ صرف طلوعِ فجر صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے، پینے، جماع اور دیگر مفطرات کی حرمت پر قرار اختیار کیا۔ اور پوری رات ان چیزوں کے مباح ہونے کے حکم نے آخری صورت اختیار کی۔ جب کہ پہلے یہ اجازت عدم نوم یا عدم صلاۃ
[1] جناب عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول: تفسیر الطبری عند تفسیر آیۃ ۱۸۷ من سورۃ البقرہ من طریق علي بن ابی طلحہ عنہ دیکھ لیں۔ اور جناب قاسم بن محمد رحمہما اللہ کی تفسیر امام الواحدی نے اپنی کتاب ’’اسباب النزول‘‘ ص ۵۲ میں درج کی ہے۔ امام قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم کا شمار مدینہ منورہ کے مشہور فقہاء میں ہوتا تھا۔ اور آپ رحمہ اللہ اپنی پھوپھی اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں جب کہ آپ سے امام زہری رحمہ اللہ جیسے بڑے بڑے محدثین نے روایت کی ہے۔