کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 51
عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ o ﴾(البقرہ:۱۸۷) (ترجمہ پیچھے گزر چکا ہے۔) بعینہ اس ضمن میں جناب قاسم بن محمد رحمہما اللہ کی تفسیرہے۔ کہتے ہیں: روزوں کی فرضیت(رمضان المبارک میں)کا آغاز یوں ہوا کہ آدمی عشاء سے اگلی عشاء تک روزہ رکھتا تھا۔ اور جب وہ سو جاتا تو اس کے بعد اپنی بیوی کے پاس نہیں آسکتا تھا۔ اور نہ ہی وہ کھا، پی سکتا تھا۔ حتی کہ(وہ واقعہ پیش آیا کہ جس کا پیچھے ذکر آچکا ہے)جناب عمر رضی اللہ عنہ اپنی بیوی سے مباشرت کر بیٹھے۔ اس نے کہا بھی کہ میں سو گئی تھی(اس لیے اب میں آپ رضی اللہ عنہ کے لیے حلال نہیں ہوں۔)مگر وہ اس سے صحبت کر بیٹھے تھے۔ اور ادھر قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ نے سارا دن روزے سے گزار کر جب وقت قریب آیا تو افطار کرنے سے پہلے ہی سو گئے۔ اور(شرعی قانون یہ تھا کہ)جب وہ لوگ سو جاتے تو نہ وہ کھا سکتے تھے اور نہ ہی کچھ پی سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اگلی صبح روزے کی حالت میں ہی کی اور کیفیت یہ تھی کہ وہ روزے سے کہیں ہلاک نہ ہو جاتے۔(اس قدر انہیں کمزوری اور تھکاوٹ لاحق ہو گئی۔)چنانچہ اللہ رب