کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 50
تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ (ترجمہ اوپر گزر چکا ہے۔) اس آیت کا سببِ نزول اور جناب ابن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیر یوں ہے: مسلمان آغازِ فرضیت رمضان میں رمضان المبارک کے روزے یوں رکھتے تھے کہ جب وہ نمازِ عشاء ادا کر لیتے تو ان پر عورتیں اور کھانے پینے کی تمام چیزیں اگلے غروبِ آفتاب تک حرام ہو جاتے تھے۔ پھر مسلمانوں(صحابہ کرام)میں سے کچھ لوگوں نے رمضان المبارک میں عشاء کے بعد کھانا بھی کھا لیا اور اپنی بیویوں سے وہ جماع بھی کر بیٹھے۔ ان میں سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، اور ان لوگوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ندامت کے ساتھ ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ فرمان نازل فرما دیا: ﴿عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ وَ لَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ