کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 35
’’میرے سب سے زیادہ محبوب دوست(اللہ کے حبیب و خلیل نبی محمد)صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی نصیحت فرمائی:(۱)ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنے کی۔(۲)ٹھنڈی چاشت میں دو رکعات نفل ادا کرنے کی۔ اور(۳)یہ کہ میں سونے سے پہلے(روزانہ)وتر پڑھ لیا کروں۔‘‘ دوسرا مرحلہ:…روزے کی عبادت کو شریعت میں باقاعدہ قانونی حیثیت دینے کے دوسرے مرحلہ میں عاشوراء کے روزے میں اختیار دے دینا تھا۔(کہ جو کوئی چاہے رکھے او ر جو چاہے نہ رکھے۔)اور یہ رمضان المبارک کے ایام معدود(۲۹ یا ۳۰ دنوں)کی فرضیت کا حکم آنے کے بعد ہوا۔ جیسا کہ سورۃ البقرہ کی ان دو نوں آیات سے واضح ہوتا ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن o﴾(البقرہ:۸۳،۸۴)