کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 242
عٰکِفُوْنَ فِیْ الْمَسٰجِدِ﴾(البقرہ:۱۸۷) ’’ پھر روزے کو رات(کے آغاز)تک پورا کرو اور تم اپنی بیویوں سے مباشرت کرو اس حال میں کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کیے ہوئے ہو۔ ‘‘ سیّدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:(اے اللہ کے پیارے نبی!)میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ میں مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا۔ ‘‘ [1](فرمائیے! میرے لیے کیا حکم ہے؟)نبی مکرمؐ نے فرمایا:((فَأَوْفِ بِنَذْرِکَ۔))… ’’ اپنی نذر پوری کرو۔‘‘ [2] ان دونوں نصوص شریفہ پر غور و نظر کرنے والابظاہر ان دونوں میں تعارض پائے گا۔ اور وہ یوں کہ آیت کریمہ اعتکاف کو روزے کے ساتھ بیان کر رہی ہے۔ گویا کہ بغیر روزے کے اعتکاف جائز نہیں ہے۔ جبکہ حدیث رات کے وقت اعتکاف کی طرف راہنمائی کر رہی ہے۔ اور یہ بات تو معلوم ہے کہ رات
[1] البتہ صحیح مسلم میں لَیْلَۃً کی بجائے یَوْمًا کا کلمہ جو آیا ہے تو ابن حبان رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ کچھ دیگر محدثین نے بھی دونوں روایتوں میں یوں تطبیق دی ہے کہ؛ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دن اور ایک رات کے اعتکاف کی نذر مانی تھی تو جس نے رات کی قید نہیں لگائی اس نے اس کا دن مراد لیا ہے اور جس نے دن کی قید نہیں لگائی اُس نے رات مراد لی ہے۔ دیکھئے: فتح الباری: ۴؍ ۳۲۲۔ [2] اس کا حوالہ پیچھے گزر چکا ہے۔