کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 237
اور مسجد اقصیٰ بیت المقدس)کے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے۔ اس کے لیے دلیل اللہ عزوجل کا وہی فرمان ہے جو پیچھے گزرا:﴿وَأَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ﴾… اور اس حال میں کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کیے ہوئے ہو۔(تو یہاں مطلق مساجد کا ذکر ہے۔ کسی مسجد کی تخصیص نہیں۔)[1]
اس مقام پر یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ عورت کا اپنے گھر میں اعتکاف جائز ہے۔ اس حیثیت سے کہ اُس کے اعتکاف میں بڑا داعیہ اس کے پردے کا ہے۔ بخلاف مسجد میں اس سے تعرض کے لیے ان لوگوں کی کثرت کی وجہ سے کہ جو اُسے دیکھ پاتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے عورت کا مسجد میں اعتکاف کرنا مطلق طور پر مکروہ جانا ہے۔ جبکہ احناف نے عورت کے
[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں : اس آیت سے صرف مسجد میں اعتکاف کے صحیح ہونے کی وجہ دلالت یہ ہے کہ: اگر یہ مسجد کے علاوہ صحیح ہوتا تو آیت میں اللہ تعالیٰ عدم مباشرت و جماع کی حرمت کو بالخصوص بیان نہ فرماتے۔ اس لیے کہ جماع و مباشرت بالاجماع اعتکاف کے منافی ہے۔ اور مساجد کے ذکر سے معلوم ہوا کہ اعتکاف صرف مسجدوں میں ہی ہوسکتا ہے۔ دیکھئے: فتح الباری: ۴؍ ۳۱۹۔ علاوہ ازیں امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی آیت کا یہی مفہوم سمجھتے ہوئے اس پر باب کا عنوان یوں قائم کیا ہے: باب الإعتکاف فی العشر الأواخر والإعتکاف فی المساجد کلھا لقولہ تعالیٰ:وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسَاجِدِ…الخ۔
[نوٹ: صحیح احادیث سے ثابت شدہ صحیح بات یہ ہے کہ عورتیں بھی مسجد میں اعتکاف بھی بیٹھیں۔ تفصیل ہماری کتاب ’’ نیکی اور برائی ‘‘ میں دیکھ لیں۔ المترجم ابویحییٰ محمد زکریا زاہد]