کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 220
مسئلہ:… روزوں میں سحری کھانے کی مشروعیت میں حکمت کیا ہے؟ بلکہ اسے دیر سے کھانے پر مسنون ہونے کی؟ جبکہ ماہِ رمضان تو بھوک اور پیاس کا مہینہ ہے؟
جواب:… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے وقت کھانا ہمارے لیے مسنون قرار دیا ہے۔ تو یہ قابل اتباع سنت ہے لازم اور واجب نہیں۔ لیکن یہ ہے کہ سحری کھانا روزے دار کے لیے بطورِ رحمت مشروع کیا گیا ہے اور سحری میں برکت کے حصول کے لیے۔ اور یہ کہ روزوں میں وصال کے ارادہ کو منع کرنے کے لیے سحری مشروع ہے۔(وصال کا معنی و مفہوم پیچھے گزر چکا ہے۔ مزید تفصیل حاشیہ پر دیکھ لیں۔)[1] لیکن سحری کھاتے وقت کئی طرح کے
[1] رمضان میں روزوں کے مابین وصال کا معنی: ’’ اگلے دن کے غروبِ آفتاب تک تمام روزہ توڑ ڈالنے والی چیزوں سے بچا، رُکا رہے۔ ‘‘ تو اس سے ایک دن کا روزہ اگلے دن کے روزے سے مل جاتا ہے۔ اور روزے دار ان دونوں روزوں کے مابین کچھ بھی کھائے پیئے نہیں۔ اور صحیح احادیث میں اس وصال سے منع کردیا گیا ہے۔ جیسا کہ صحیح البخاری کی حدیث: ۱۹۵۶ اور صحیح مسلم کی حدیث ۱۱۳۰ میں مذکور ہے۔ لیکن جو آدمی اس بات کو پسند کرے کہ وہ غروبِ آفتاب سے لے کر سحری کے وقت تک افطاری کو روکے رکھے تو یہ اُس کے لیے جائز ہے۔ جیسا کہ صحیح البخاری کی حدیث ۱۹۶۳ میں ہے۔ یہ حدیث سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَا تَوَاصِلُوْا، فَأَیُّکُمْ أَرَادَ أَنْ یُّوَاصِلَ فَلْیُوَاصِلْ حَتَّی السَّحَرِ۔)) … ’’ وصال کے روزے نہ رکھو اور تم میں سے جو آدمی ارادہ کرے کہ وہ وصال کرے گا تو اُسے چاہیے کہ سحری تک کچھ نہ کھائے اور وصال کرلے۔ ‘‘ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: تفسیر ابن کثیر، ص: ۱۹۵، طبع بیت الافکار الدولیۃ۔
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں حدیث ۶۹۹ پر لکھا ہے کہ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے موجب افطاری جلدی کرلینے کو اہل علم، اہل حدیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے ہمیشہ اختیار کیا ہے۔ یہی مسلک امام شافعی، احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا ہے۔ اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: سحری تک وصال کرلینے کے جواز کے ساتھ ساتھ افطاری کرنا اور جلدی کرلینا زیادہ اولیٰ اور اقرب الی السنہ ہے۔ اور وصال سے ممانعت کا فائدہ اُمت پر شفقت اور رحمت کے لیے ہے۔ جیسا کہ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی متفق علیہ حدیث میں ہے: (( نَھَی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم عَنِ الْوِصَالِ رَحْمَۃً لَھُمْ، فَقَالُوْا: إِنَّکَ تُوَاصِلُ؟ قَالَ: إِنِّيْ لَسْتُ کَھَیْئَتِکُمْ، إِنِّيْ یُطْعِمُنِيْ رَبِّیْ وَیُسْقِیْنِیْ۔)) … معنی اور شرح پیچھے گزرچکے ہیں۔ دیکھئے: صحیح البخاری: ۱۹۶۴۔ وصحیح مسلم، حدیث: ۱۱۰۵۔