کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 186
(۱۶) ایسی ہوا کا سونگھنا کہ جسے کستوری یا گلاب وغیرہ کے عطر و خوشبو سے معطر کیا گیا ہو۔(اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔)یہاں یہ بات قابل لحاظ رہے کہ جو آدمی عود یا عنبر وغیرہ کی دھونی دُھکائے اور اس کے دھویں کو سونگھتے ہوئے اس کو اپنے نفس میں پناہ دے اور یہ دھواں اس کے حلق میں پہنچ جائے اور وہ آدمی اپنے روزے کو بھی یاد رکھے ہوئے ہو تو اُس کا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ یہ حکم اس دھویں کے اندر داخل ہوجانے سے بچنے کے امکان کی بنا پر ہے۔(تاکہ اس سے بچا جاسکے)اور اس لیے کہ دھویں کا اصل جوہر تو پیٹ تک پہنچے چکا ناں!(اس لیے روزہ ٹوٹ جائے گا۔)واللہ اعلم بالصواب۔
(۱۷) سنگی لگوانا۔(اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا)سنگی ہوتی ہے: نشتر لگاکر یا چوس کر جسم میں جمع شدہ، منجمد خون کو باہر نکال دینا۔ تو اس سے نہ سنگی لگانے والے کا روزہ ٹوٹتا ہے اور نہ ہی سنگی لگوانے والے کا۔ مگر یہ ہے کہ صرف مکروہ(اور ناپسندیدہ)عمل ہے۔ [1]
[1] یہی جمہور کا مذہب ہے۔ اور انہوں نے صحیح البخاری میں حدیث ۱۹۳۸ اور صحیح مسلم میں حدیث ۱۲۰۲ پر وارد حدیث: (( اَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وسلم احْتَجَمَ وَھُوَ مُحْرِمٌ وَاحْتَجَمَ وَھُوَ صَائِمٌ۔)) … ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں سنگی لگوائی اور اس حال میں بھی سنگی لگوائی کہ آپؐ روزے سے تھے۔ ‘‘ حنابلہ کا رجحان اس طرف ہے کہ سنگی سے سنگی لگانے والے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اور اُن کا یہ موقف سنن الترمذی میں حدیث ۷۷۴ پر عمل کرتے ہوئے ہے۔ جس میں ہے: (( أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوْمُ۔)) … ’’ سنگی لگانے والے اور سنگی لگوانے والے دونوں کا روزہ ٹوٹ گیا۔ ‘‘ (قال ابو عیسیٰ الترمذی: حدیثٌ حسنٌ صحیحٌ وصححہ الألبانی رحمہما اللّٰہ) مزید دیکھئے: الانصاف للمرادوي: ۳؍ ۳۰۲۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دونوں طرح کی احادیث کے درمیان تطبیق یوں ہوگی کہ؛ اُس شخص کے لیے روزے کی حالت میں سنگی لگوانا مکروہ ہوگا جو اس کے ساتھ نہایت کمزور ہوجائے۔ اور یہ کراہت (ناپسندیدگی) اس وقت اور زیادہ بڑھ جائے گی جب کمزوری اس حد تک پہنچ جائے کہ اس کی وجہ سے روزہ افطار کرنا پڑے۔ مگر اس شخص کے حق میں سنگی لگوانا مکروہ نہیں ہوگا کہ جو اس سے کمزوری محسوس نہ کرے۔ بہرحال اگر روزے دار سنگی لگوانے سے اجتناب کرے تو یہ اُس کے لیے اولیٰ بات ہوگی۔ دیکھئے: نیل الاوطار، جلد نمبر: ۴، صفحہ ۲۰۳۔