کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 182
آدمی جان بوجھ کر(منہ میں انگلی مار کر یا کوئی چیز منہ میں ڈال کر)قے کرلے تو اسے چاہیے کہ(بالوجوب)اس روزے کی قضاء کرے۔ ‘‘[1] اور سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:((اِذَا قَائَ فَلَا یُفْطِرُ، إِنَّمَا یُخْرِجُ وَلَا یُوْلِجُ۔))… ’’ قے کرنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا(کہ جب غیر ارادی طور پر آجائے)، کیونکہ قے چیزوں کو باہر نکالتی ہے اندر نہیں لے جاتی۔ ‘‘[2] (۹) بغیر انزال کے اپنی بیوی سے بوس و کنار کرلینا۔ (۱۰) کسی(حسین و جمیل لڑکی، عورت یا لڑکے)سے بار بار نظریں دوچار
[1] اخرجہ الترمذي؍ کتاب ماجآء فیمن استقاء عمدًا، حدیث: ۷۲۰۔ قال الترمذی حدیث حسنٌ غریب۔ وقال الشیخ الالبانی رحمہما اللّٰہ: صحیحٌ۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے آخر میں لکھتے ہیں : اہل علم، اہل حدیث کا عمل سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی اسی حدیث پر ہے کہ؛ روزہ دار کو جب قے اس کے ارادہ کے بغیر خودبخود آجائے تو اس پر قضاء نہیں ہوگی اور جب کوئی روزے دار جان بوجھ کر ارادتاً قے کرے تو پھر چاہیے کہ وہ قضائً روزے رکھے۔ یہی مسلک امام شافعی، سفیان ثوری، احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ رحمہم اللہ کا ہے۔ [2] دیکھیے: صحیح البخاری؍ کتاب الصوم، باب اوّل الحجامۃ والقئ للصائم، باب: ۳۷۔ اور سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اگر یہ غیر ارادی طور پر قے خودبخود آجاتی تو وہ روزہ توڑتے نہیں تھے۔