کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 168
آدمی اگر اپنی قسم کی ایفاء نہ کرے۔(توڑ ڈالے)ان تینوں میں سے کوئی بھی صورت اختیار کرلے وہ اس کے کفارہ میں کافی ہوگی۔ اور اللہ عزوجل نے اس ضمن میں آسان سے آسان کفارہ کو پہلے بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ مسکینوں کو کھانا کھلانا سب سے آسان ہے۔ اسی طرح کپڑے پہنانا غلام آزاد کرنے سے زیادہ آسان ہے۔ چنانچہ یہاں ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف بالترتیب بیان آیا ہے۔ اور اگر ان کفارہ جات کا مکلف ان تینوں صورتوں میں سے کسی ایک پر قدرت نہ رکھے، تو پھر وہ تین دن کے روزے رکھ کر کفارہ ادا کرے۔ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں:
﴿فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَـلَا ثَۃٍ اَیَّامٍ ط﴾(المائدۃ:۸۹)
’’ اور جس کو ان تینوں میں سے کسی ایک کا مقدور نہ ہو تو اس پر تین دن کے روزے ہیں۔ ‘‘[1]
[1] دیکھیے: تفسیر ابن کثیر، ص: ۵۷۶۔ اور سورۃ المائدہ کی آیت ۸۹ کی تفسیر والے اس مقام پر علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے آگے یوں بھی لکھا ہے: علماء نے اس بارے اختلاف کیا ہے، کیا ان تین دنوں کے روزوں میں تسلسل رہنا واجب ہے یا مستحب ہے واجب نہیں اور تسلسل کے بغیر روزے رکھ لینا کیا درست ہوگا؟ جواب دو اقوال کی بنیاد پر ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ: ان روزوں میں تسلسل واجب نہیں ہے۔ یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا ’’ کتاب الایمان ‘‘ میں منصوص ہے اور یہی امام مالک رحمہ اللہ کا قول ہے۔ ان حضرات کی دلیل ﴿فَصِیَامُ ثَـلَاثَۃِ اَیَّامٍ﴾ میں مطلق طور پر تین روزوں کا ذکر ہے، تتابع بیان نہیں ہوا۔ تو رمضان المبارک کے روزوں کی قضاء کی طرح یہاں بھی مجموعہ و مغرقہ پر سچی بات یہی ہے۔ جیسے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَ یَّامٍ اُخَرَ﴾ (البقرۃ:۱۸۴) ’’ (تو تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ) وہ اور دنوں میں (رمضان کے رہ جانے والے روزوں کی) گنتی پوری کرلے۔ ‘‘ تو یہاں بھی تسلسل و تتابع ذکر نہیں ہوا۔