کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 147
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((مَنْ لَمْ یُجْمِعِ الصِّیَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِیَامَ لَہُ۔))… ’’ جس آدمی نے فجر سے پہلے(رات کو)روزہ رکھنے کی نیت نہ کی اُس کا روزہ نہیں ہوگا۔ ‘‘[1] اور زوال سے کچھ پہلے تک نفلی روزے میں نیت کو متاخر کرلینے کی دلیل درج ذیل حدیث ہے؛ اگر اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے پاس تشریف لائے اور دریافت فرمایا: ’’ عائشہ! کیا تمہارے پاس کچھ کھانے پینے کے لے ہے؟ ‘‘ ہم نے عرض کیا: نہیں جی! فرمایا:((فَإِنِّيْ إِذَنْ صَائِمٌ۔))…’’ تب میں روزے سے ہوا۔ ‘‘[2] ج:حیض اور نفاس وغیرہ سے طہارت:۔ اور یہ روزے کے مکمل دن میں شرط ہے۔ اور جس عورت کا حیض یا نفاس کا خون رات کے وقت منقطع ہوجائے مگر اس نے غسل نہ کیا ہو جبکہ اگلے دن کے روزے کی اُس نے نیت کرلی ہو تو اُس کا روزہ درست ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی عورت کو دن کے کسی حصے میں حیض یا نفاس شروع ہوگیا تو اُس کا روزہ
[1] صحیح سنن أبی داؤد؍ کتاب الصیام، باب النیّۃ فی الصوم، حدیث: ۲۴۵۴۔ وقال الشیخ الألباني رحمہ اللّٰہ: صحیحٌ۔ [2] جزء من حدیث اخرجہ مسلم؍ کتاب الصیام، باب جواز صوم النافلۃ نبیۃ من النہار قبل الزوال، حدیث: ۱۱۵۴۔