کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 130
وغیرہ کی وجہ سے دھندلا)ہوجائے تو ماہِ شعبان کی گنتی تیس دن کی پوری کرلو۔ ‘‘[1]
شافعی فقہاء نے جناب کریب رحمہ اللہ کی درج ذیل حدیث سے استدلال کیا ہے: ’’ اُمّ الفصل لبابہ بنت حارث الہلالیہ رضی اللہ عنہ نے اُن(حضرتِ کریبؒ)کو ملک شام میں کسی کام سے سیّدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کی طرف بھیجا۔ حضرتِ کریب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ: میں ملک شام پہنچا اور میں اُمّ الفضلؓ کا کام نبٹایا۔ اسی دوران کہ جب میں ملک شام میں ہی تھا میرے اوپر رمضان المبارک کا چاند نکل آیا۔(اور روزے شروع ہوگئے)میں نے یہ چاند(جمعرات کا دن مکمل ہونے پر)جمعہ کی رات کو دیکھا تھا۔ پھر میں ماہِ رمضان کے آخر میں واپس مدینہ منورہ آگیا۔ سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے
[1] متفق علیہ: دیکھیے: صحیح البخاری؍ کتاب الصوم، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم : إذا رأیتم الہلال … حدیث: ۱۹۰۹۔ وصحیح مسلم؍ کتاب الصیام، باب وجوب صوم رمضان لرؤیۃ الہلال، حدیث: ۱۰۸۱۔ صحیح البخاری میں ’’ غُبِّيَ ‘‘ کا لفظ بھی ہے۔ اور صحیحین میں غُمِيَّ، غُبِّيَ یا غُمَّ، یا أُغْمِيَ کے الفاظ جو آئے ہیں تو ان سب کا معنی یوں ہوگا: (( وُجُوْدُ غَیْمٍ وَنَحْوِہِ فِی السَّمَائِ تُسَبِّبُ فِيْ عَدْمِ إِمْکَانِ رُؤْیَۃِ الْہِلَالِ۔)) … ’’ آسمان میں کسی بادل وغیرہ کا پایا جانا کہ جو چاند کو دیکھنے کے عدمِ امکان کا سبب بنے۔ واللہ اعلم۔