کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 115
مِنْ کَسْبِہٖ مِنْ غَیْرِ أَمْرِہٖ فَـإِنَّ نِصْفَ أَجْرِہٖ لَہُ۔)) ’’ جب عورت کا خاوند موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر(نفلی)روزہ نہ رکھے۔ نہ ہی وہ خاوند کے گھر میں اس کی موجودگی کے دوران(اپنے عزیز و اقارب میں سے)کسی کو اس کی اجازت کے بغیر آنے کی اجازت دے۔ اور اپنے خاوند کی کمائی میں سے جو(معروف و مناسب طریقے سے)وہ اس کے حکم کے بغیر خرچ کرے گی(فی سبیل اللہ دے گی)تو اس نیکی کا آدھا اجر خاوند کو بھی ملے گا۔ ‘‘[1] ۳:اس شخص کا روزہ کہ جس سے اُس کو ہلاک ہونے کا خطرہ ہو(بھی رکھنا حرام ہے)اور یہ حکم نصوصِ شرعیہ کی دلالت کے عموم کی بنیاد پر ضرورتوں
[1] دیکھیے: صحیح البخاری؍ کتاب النکاح، باب لا تأذن المرأۃ… حدیث: ۵۱۹۵۔ وصحیح مسلم؍ کتاب الزکاۃ، باب ما أنفق العبد من مال مولاہ، حدیث: ۱۰۲۶۔ یہ حدیث جیسا کہ معلوم ہے۔ اس پر محمول ہے کہ جو نفلی روزے رکھے۔ اور اس پر حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ عورت پر خاوند کے حق کی رعایت کرنا ہمیشہ کے لیے اس کے ساتھ لگا دیا گیا ہے۔ اور اگر عورت کو اس کے خاوند کی اجازت کے بغیر روزہ رکھنا مباح کردیا جاتا تو یہ معاملہ خاوند کو اس کے حق سے روکنے کے مترادف ہوتا۔ تفصیل کے لیے دیکھیں : صحیح مسلم پر شرح قرطبي: ۴؍۱۷۲۷۔