کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 114
ممانعت خاوند کا اپنی بیوی سے استمتاع والی ضرورت کے تحت ہے۔ اگر بیوی خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی روزہ رکھ لے تو خاوند کو شریعت میں اس بات کی اجازت ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی سے مباشرت و جماع کی ضرورت محسوس کرے تو وہ اُس کا روزہ تڑوادے۔ اور اگر خاوند کو اپنی بیوی سے ایسی کوئی حاجت نہ ہو اور وہ روزے سے ہو تو خاوند کے لیے یہ بات نہایت ناپسندیدہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو روزے سے منع کرے۔ اور یہ کہ روزہ عورت کے لیے نقصان دینے والا نہ ہو اور نہ ہی روزے سے بچے کو دودھ پلانے یا اولاد کی تربیت کرنے میں اس کو باز رکھنے کا سبب بنتا ہو۔ یہ حکم شوال کے چھ مسنون روزوں سمیت دیگر تمام نفلی روزوں کے لیے برابر ہے۔ ‘‘[1] جیسا کہ حدیث میں ہے: سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لَا تَصُومُ الْمَرْأَۃُ وَبَعْلُھَا شَاھِدٌ إِلَّا بِـإِذْنِہٖ، وَلَا تَأْذَنْ فِيْ بَیْتِہٖ وَھُوَ شَاھِدٌ إِلَّا بِـإِذْنِہٖ، وَمَا أَنْفَقَتْ
[1] اس فتویٰ کی نص کے لیے فضیلۃ الشیخ؍ عبداللہ الجبرین حفظہ اللہ کے ’’ فتاویٰ الصیام ‘‘ (جمع کردہ احمد المدیضر) ص ۷۲ کا مطالعہ کرلیں۔