کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 111
وہ ان دونوں میں سے کسی بھی حالت میں روزہ رکھے گی تو گنہگار ہوگی، اس کا یہ روزہ درست نہیں ہوگا۔ پھر جب وہ پاک ہوجائے تو ان دنوں کے روزے(جتنے بھی رہ گئے ہوں)دوسرے دنوں(رمضان المبارک کے علاوہ)میں رکھ کر ان کی قضاء دینا ہوگی، البتہ نمازوں کی قضائی نہیں۔ اس لیے کہ نماز کی قضاء میں ایک فطری حرج کی بناء پر ممانعت ہے۔ کیونکہ نماز روزانہ پانچ بارمکرر آتی ہے۔ تو(اللہ کی طرف سے)آسانی کی بنیاد پر ان دنوں کے وجوب کی ادائیگی ساقط ہوجاتی ہے۔ البتہ جہاں تک ان دنوں کے روزوں کا تعلق ہے تو ان کی تعداد چونکہ تھوڑی ہوتی ہے، اس لیے ان کی قضائی میں کچھ ممانعت و حرج نہیں ہے۔ اس لیے عورت کو ان دنوں کی قضائی کا حکم دیا گیا ہے۔ تو وہ ان دنوں کے قضاء روزے ضرور رکھے چاہے اگلے رمضان سے قبل شعبان کے مہینے میں ہی کیوں نہ رکھ لے۔ جس بات کا احاطہ کرنا یہاں نہایت مناسب ہے وہ یہ ہے کہ: حیض و نفاس والی عورتوں کے لیے اولیٰ یہ ہے کہ ان کا(رمضان میں اپنے مخصوص دنوں کے اندر)روزے نہ رکھنا مخفی طور پر ہو۔ اس لیے کہ ان کا روزے نہ رکھنے کا سبب بھی(فطرت کی طرف سے)مخفی ہوتا ہے۔(کسی اور کو بتائے بغیر علم نہیں ہوتا کہ وہ