کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 110
جانور نہ پاسکے۔ ‘‘ [1] اور سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یوں بھی فرماتے ہیں کہ: ’’ روزے اس شخص کے لیے ہیں کہ جو حج تمتع کر رہا ہو اور اگر وہ قربانی کا جانور حاصل نہ کرسکے اور نہ ہی اُس نے اس سے پہلے روزے رکھے ہوں(کہ جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔)تو وہ منیٰ کے دنوں(۱۱، ۱۲، ۱۳ ذوالحجہ)میں روزے رکھ لے۔ ‘‘[2] ب:کسی علت کے سبب کہ جو روزے کو حرام اور ممنوع کا ذریعہ بنے، بھی روزے رکھنا حرام ہیں۔ اور ان میں سے: ۱:حالت حیض یا حالت نفاس میں ہونے کی بنا پر عورت کا روزے رکھنا حرام اور ممنوع ہے۔ ان دونوں حالتوں میں ہونے کی بنا پر رمضان المبارک میں عورت سے روزے کا وجوب ساقط ہوجاتا ہے۔ اور ان ایام(حیض و نفاس)میں اُس پر روزے مطلق طور پر حرام ہوتے ہیں اور اگر روزے رکھے بھی تو ان کو شریعت میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اگر
[1] دیکھیے: صحیح البخاری؍ کتاب الصوم، باب صیام ایّام التشریق، حدیث: ۱۱۹۷، ۱۱۹۸، ۱۹۹۔ [2] دیکھیے: صحیح البخاری؍ کتاب الصوم، باب صیام ایّام التشریق، حدیث: ۱۱۹۷، ۱۱۹۸، ۱۹۹۔