کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 104
اگلے دن کا بھی روزہ رکھ لینے)سے ان پر رحمت و شفقت کی بنا پر منع کیا ہے۔ ‘‘[1] اور یہ جو حدیث میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت کے افراد کے درمیان تماثل کی نفی کا ذکر ایا ہے تو وہ ان کی کھانے اور پینے کی مجبوری میں ایک ہیئت کی حیثیت سے ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے ربّ العرش العظیم کی طرف سے ہمیشہ یہ معاملہ رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو جنت سے آنے والی نعمتوں کے ذریعے کھلاتا پلاتا تھا۔ یا آپ کو عطا کی جاتی تھی ایک کھانے پینے والے کی قوت اس چیز کے ساتھ کہ جس میں اللہ تعالیٰ سیری و سیرابی کو پیدا فرماتا تھا جو کہ کھانے اور پینے سے مستغنی کردیتی تھی۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے جس نے(افطاری کے وقت یا اس کے بعد)کھا، پی لیا تو اُس کا وصال اُس کے روزے سے منقطع ہوگیا جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مواصلت منقطع نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا، پینا ھیئتاً اور معنًا دونوں اعتبار سے صحابہ کرام کے کھانے اور پینے سے مختلف ہوتا تھا۔ [2] ح:عمر بھر کے روزے …(بھی مکروہ ہیں)سوائے ان دنوں کے کہ جن
[1] یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح البخاری میں درج فرمائی ہے۔ دیکھیے: حدیث: ۱۹۶۴۔ [2] دیکھیے: فتح الباری، جلد نمبر: ۴، ص: ۲۴۴۔