کتاب: روزہ جو ایک ڈھال ہے - صفحہ 100
دن پہلے روزہ رکھ کر(رمضان کے استقبال کے لیے)پیش قدمی نہ کرے۔ ا لّا یہ کہ کوئی آدمی اپنے کوئی(قسم، نذر، کفارہ اور قضائی وغیرہ کے)روزے رکھتا چلا آرہا ہو تو وہ اس دن کا روزہ رکھ لے۔ ‘‘[1] و:کفار کی عیدوں والے دنوں میں سے کسی دن میں روزہ رکھ کر مسلمانوں سے الگ اپنی انفرادیت قائم کرنا بھی مکروہ ہے۔ جیسے کہ ہفتہ اور اتوار والے دن کا بالتخصیص روزہ رکھنا۔(اس کا بیان پیچھے گزر چکا ہے۔)ہفتہ اور اتوار کی طرح مجوسیوں کے جشن نو روز اور جشن مہرجان کے روزے
[1] دیکھیے: صحیح البخاری؍ کتاب الصوم، باب لا یتقدمنّ رمضان۔۔۔ حدیث: ۱۹۱۴۔ وصحیح مسلم بمعناہ؍ کتاب الصیام، باب لَا تُقَدِّمُوْا رمضان… حدیث: ۱۰۸۲۔ رمضان المبارک سے ایک، دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت کی علامت، ماہِ رمضان کے یقینی طور پر شروع ہوجانے میں وسوسہ اور شک کو دور کرنا ہے۔ اور عبادت میں غلو اور تکلیف سے دور رکھنا بھی ہوسکتا ہے۔ اسی طرح مسلمان آدمی کو دوسرے مسلمانوں سے (اس کے تکلفات میں پڑ کر) ممتاز ہونے والے تاثر سے محفوظ رکھنا بھی مقصود ہوسکتا ہے۔ بعینہٖ اس کراہت میں رمضان المبارک والے روزوں کے مہینے کا احترام بھی مطلوب ہے کہ شعبان کے ایک دو دنوں کو بھی شامل کیا جارہا ہوتا ہے کہ جو اس کی گنتی میں ہوتے ہی نہیں ہیں۔ اور یہ کہ اس ممانعت سے مقصود مسلمانوں کے درمیان ممکن اختلاف کو زائل اور دُور کرنا بھی ہے کہ جو بعض لوگوں کے روزہ رکھنے سے پیدا ہوگا۔