کتاب: روزہ حقیقت و ثمرات - صفحہ 68
یعنی [ شبِ قدر کو رمضان کے عشرِاخیر کی طاق راتوں میں تلاش کرو] اتنی بابرکت اور افضل رات کو پانے کیلئے ضروری ہے کہ عشرِ اخیر کی طاق راتیںمکمل طور پہ اللہ تعالیٰ کی عبادت واطاعت میں صرف کی جائیں، ان راتوں میں سونا یا لہو ولعب میں مشغول رہنا یا ان افضل ترین لمحات کو بازاروں میں عید کی خریداری کے بہانے ضائع کردینا بہت بڑی محرومی ہے ۔ان راتوں کی عبادت کیلئے چونکہ خلوت مطلوب ہے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر خلوت پسند فرماتے کہ پورا عشرہ اعتکاف میں چلے جاتے ؛لہذا ان راتوں میں تقاریر کے لمبے لمبے پروگرام ،مذکورہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی ہونے کی وجہ سے محلِ نظر ہیں ،البتہ ائمہ حضرات اگر مختصر اورجامع انداز سے اپنے نمازیوں کو ان راتوں کی اہمیت وافادیت سے مطلع کردیں اور ترقیقِ قلوب کیلئے کچھ نصیحتیں کردیں تو یہ زیادہ مستحسن ہوگا۔عشرِ اخیر کو یا تو اعتکاف کی خلوتوں میں گذارا جائے،اور اگر اعتکاف نہیں کرسکے تو پھر اپنے گھر میں تنہائی اختیار کرلی جائے، جس کا دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ اہلِ خانہ کی نگرانی بھی ہوجائے گی جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل کو جگاتے تھے ۔ (و اللہ ولی التوفیق) آپ کے گھر میں کوئی اہم مہمان آنے والا ہوتو آپ کی کوشش ہوگی کہ مہمان کی آمد سے قبل گھر کو اچھی طرح سجادیا جائے حتی کہ خادموں تک کو اچھا لباس پہنادیا جاتا ہے، لیلۃ القدر میں تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہر گھر میں بطورِ مہمان داخل ہوتے ہیں ،جن کی مطلوبہ زینت وسجاوٹ یہ ہوتی ہے کہ گھر کا ہر فرد اطاعت وعبادت میں مصروف ہو،