کتاب: روزہ حقیقت و ثمرات - صفحہ 34
(۳) صبر علی اقدار اللہ المؤلمۃ،یعنی اللہ تعالیٰ نے تقدیر میں انسان کیلئے جو تکالیف لکھ دی ہیں انہیں پورے صبر واستقامت کے ساتھ برداشت کرنا،چنانچہ روزہ دار کو روزہ کی حالت میں بھوک اور پیاس کی تکلیف لاحق ہوتی ہے،بالخصوص اس وقت جب دن انتہائی گرم اور طویل ہو۔ معلوم ہوا کہ صبر جس کا صلہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بے حساب ہے،روزہ کے اندر پوری طرح موجود ہے اسی لئے روزہ کا اجربھی بے حد وحساب ذکر کردیاگیا (روزہ کے اجر کا بیحد وحساب ہونا انسانوں کے تعلق سے ہے، اللہ تعالیٰ ہر چیز کی مقدار سے باخبر ہے) واضح ہو کہ مذکورہ حدیث ِ ابوھریرۃ کا پہلا جملہ صحیح بخاری میں اس طرح بھی مروی ہے :[کل عمل ابن آدم لہ الا الصیام فانہ لی] یعنی ( اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) ابن آدم کا ہر عمل اسی کیلئے ہے ،سوائے روزہ کے ،کہ بے شک وہ میرے لئے ہے۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ نے جملہ عبادات میں سے روزہ کو اپنے نفس کیلئے خاص فرمایا ہے،اس اختصاص کی بہت سی وجوہ ذکر کی گئی ہیں،جن میں سے دو وجوہ قابلِ ذکر ہیں۔ (۱) روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میںانسان ایک طویل عرصہ کیلئے اپنے نفس کی طبعی خواہشات چھوڑ دیتا ہے،یہ تکلیف کسی اور عبادت میں نہیں پائی جاتی،بحالتِ حج (احرام)صرف ترکِ جماع کا حکم ہے،کھانا پینا جائز ہے،بحالتِ نماز اگر چہ کھانا پینا اور دیگر خواہشات کا ترک ضروری قرار دیا گیا ہے لیکن یہ حکم تکلیف دہ نہیں ہے