کتاب: روزہ حقیقت و ثمرات - صفحہ 20
روزہ کے حِکَمْ ومقاصد
علماء کرام نے روزہ کی بہت سی حکمتیں بیان فرمائی ہیں،جن کا ہم آگے چل کر انتہائی اختصار کے سے تذکرہ کریں گے،لیکن ہمارے نزدیک روزے کی سب سے بڑی حکمت اورسب سے ارفع وا علیٰ مقصدوہ ہے جس کا اللہ رب العزت نے اپنے مقدس کلام میں ذکر فرمایا ہے:{ یَاأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} (البقرۃ:۱۸۳)
ترجمہ:(اے ایمان والو!تم پرروزے رکھنا فرض کیا گیاجس طرح تم سے پہلے لوگوں پر (صوم)فرض کیاگیاتھاتاکہ تم تقویٰ اختیار کرو)
گویا روزہ کا مقصدبندوں کو زیورِتقویٰ سے آراستہ کرنا ہے،جو بندہ اس مقصد کو پاگیا،وہ یقینا سعادتِ دارین سے ہمکنار ہوگیا؛کیونکہ دونوں جہانوں کی فلاح ونجاح کے حصول کیلئے تقویٰ ایک نہایت ہی قوی اساس ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَسَارِعُوآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَاالسَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ} (آل عمران :۱۳۳)
ترجمہ:(اور اپنے رب کی بخشش کا طرف اور اس کی جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے،جو پرہیزگاروں کیلئے تیار کی گئی ہے)
نیز فرمایا:{وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِبْ}(الطلاق:۲،۳)