کتاب: روزہ حقیقت و ثمرات - صفحہ 19
بالتدریج…‘‘(محاسن ا لتأویل۳/۴۱۶)
’’ چونکہ کھانا پینا اور دیگر شہوات کا ترک لوگوں کیلئے انتہائی مشکل اور دشوار امر ہے، لہذا اللہ تعالیٰ نے (ازراہِ شفقت ومحبت ) روزے کی فرضیت کو ہجرت کے بعد تقریباً وسط اسلام تک مؤخر رکھا،چنانچہ لوگوں کے نفوس اور طبائع توحید اور اقا متِ صلاۃ پر پختہ ہوگئے ،اور وہ اوامرِقرآن سے خوب مانوس ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے روزہ کی فرضیت نازل فرمادی،اور اس میں بھی تدریج کا پہلو پسند فرمایا(تاکہ اس عظیم عبادت کی ادائیگی میں کسی کوتاہی کا مظاہرہ نہ ہونے پائے )‘‘
واضح ہوکہ روزہ کی فرضیت میں تدریج کا مطلب یہ ہے کہ اس کی موجودہ شکل میں حتمی فرضیت تین مراحل میں پایۂ تکمیل کو پہنچی،پہلا مرحلہ یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو روزہ اور فدیہ میں اختیار دے دیا تھا کہ خواہ روزہ رکھ لو،خواہ روزے کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلادواور روزہ چھوڑدو۔
دوسرا مرحلہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے صحتمند افراد پر حتمیت وقطعیت کے ساتھ روزہ فرض فرمادیااور روزہ اور فدیہ کی کی تخییر کا معاملہ صرف بوڑھے مرد یا عورت کے ساتھ مختص فرمادیا۔
تیسرا مرحلہ یہ ہے کہ ابتدائِ فرضیت میں روزے کی توقیت نمازِ عشاء سے لیکر اگلے روز غروب آفتاب تک تھی ،پھر اسے طلوعِ فجر تا غروبِ آفتاب کر دیاگیا،اب روزے کا معاملہ اسی صورت پر مستقلاً استقرار پاچکاہے (تفصیل کیلئے زاد المعادلابن القیم ملاحظہ کیجئے)