کتاب: روزہ حقیقت و ثمرات - صفحہ 16
جو شخص روزہ کی فرضیت تومانتا ہے،لیکن عمل طور پر نہیں رکھتا ،اس کے بارہ میں سلفِ صالحین نے بڑا شدید کلام فرمایا ہے ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ وعند المؤمنین فقرر ان من ترک صوم رمضان بلامرض أنہ شرمن الزانی ومدمن الخمربل یشکون فی اسلامہ ویظنون بہ الزندقۃ والانحلال۔‘‘
( یعنی سلف صالحین میں یہ بات طے شدہ تھی کہ جو شخص بلاعذر ایک روزہ چھوڑ دے وہ زانی اور شرابی سے بدتر ہے بلکہ سلفِ صالحین تو اس کے مسلمان ہونے میں شک کیاکرتے تھے اور اسے زندیق اور راہِ حق سے کھسکا ہواقرار دیتے تھے۔)
ابوھریرۃ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنھما فرمایاکرتے تھے:’’جو شخص بلاعذر یا بلامرض ایک روزہ چھوڑ دے ،توپھر زمانہ بھر کے روزے اس ایک رو زہ کی قضاء نہیں بن سکتے ‘‘ اس متن کی ایک مرفوع حدیث بھی بروایت ابوھریرۃ مروی ہے لیکن موقوف اصح ہے(واللہ اعلم)
روزہ کب فرض ہوا
روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ہر نبی اور اس کی امت پر فرض کی گئی ،کوئی امت روزہ کی فرضیت سے خالی نہیں رہی، اللہ تعالیٰ کا فرمان :{ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ} (البقرۃ:۱۸۳) } اس کی دلیل ہے۔