کتاب: روزہ حقیقت و ثمرات - صفحہ 14
سے ثابت ہے۔
کتاب اللّٰہ سے د لیل:
{ یَاأَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَاکُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ} (البقرۃ:۱۸۳)
یہاں کتب، بمعنی فرض ہے (محاسن التاویل للقاسمی (۳/۴۱۴)،(ا للباب فی علوم الکتاب لأبی حفص الدمشقی (۳/۲۵۰)
نیز اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اس کی فرضیت پر دال ہے:
{فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ}(البقرۃ:۱۸۵)
ترجمہ:(تم میں سے جو شخص اس مہینہ کو پائے اسے روزہ رکھنا چاہئے)
’’لیصم‘‘ لامِ امر کی وجہ سے صیغۂ امر بن چکا ہے،اور امر کا اصل معنی وجوب ہے جو روزے کے فرض ہونے کی دلیل ہے۔
احا د یث سے د لیل :
عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :[بنی الاسلام علی خمس شھادۃأن لاالٰہ الا اللہ وأن محمدا رسول اللہ واقام الصلاۃوایتاء الزکاۃ وصیام رمضان وحج البیت]
یہ حدیث اسلام کے بنیادی ارکان پر مشتمل ہے،ان ارکان میں سے ایک بنیادی رکن روزہ بھی ہے۔